قولہ… (قادیانی) حضرت اس قرأت سے حضرت مسیح ابن مریم کی زندگی کیونکر اور کہاں ثابت ہوئی۔ (آپ نے) تو قبل موتہ کے ضمیر سے مسیح کی زندگی ثابت کرنی تھی۔
اقول… (محمد بشیر) یہ قول بھی سوء فہم پر مبنی ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ قرأت مذکورہ سے مسیح بن مریم کی زندگی ثابت ہے۔ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ قرأت مذکورہ مخالف ہمارے معنی کے نہیں۔ بالجملہ مقصود رفع مخالفت ہے۔ نہ اثبات دعویٰ۔ وبینہما فرق جلی!
قولہ… (قادیانی) ہم نے تفاسیر معتبرہ کے ذریعہ سے اس کی اسناد پیش کر دی ہیں۔
اقول… (محمد بشیر) سند میں جو جرح ہے وہ میں نے اوپر بیان کر دی۔ فتذکر!
قولہ… (قادیانی) بھلا اگر آپ حق پر ہیں تو تیرہ سو برس کی تفسیروں میں سے کوئی ایسی تفسیر تو پیش کیجئے جو ان معنوں کی صحت پر معترض ہو۔
اقول… (محمد بشیر) تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن کثیر اور تفسیر فتح القدیر اور تفسیر فتح البیان اس معنی کی صحت پر معترض ہیں۔
قولہ… (قادیانی) الہامی معنی جو میں نے کئے ہیں وہ درحقیقت ان معنوں کے معارف نہیں۔
اقول… (محمد بشیر) یہ محض غلط ہے۔ کیونکہ الہامی معنی کا مدار اس پر ہے کہ ضمیر موتہ کی راجع طرف عیسیٰ کے ہے اور معنی مذکور کا مدار اس پر ہے کہ ضمیر موتہ کی راجع طرف کتابی کے ہے۔ پس سخت تعارض بین تخالف موجود ہے۔ مجھ کو سخت تعجب ہے۔ آپ کی دیانت سے کہ آپ باوجودیکہ ضمیر موتہ کا مرجع عیسیٰ ہونا اپنی کتب میں تسلیم کر چکے ہیں اور آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘کو صریحۃ الدلالۃ وفات عیسیٰ پر کہتے ہیں۔ پھر اس اقراری حق سے کیوں اعراض کرتے ہیں اور ’’جحدوا بہا واستیقنتہا انفسہم‘‘ کی وعید سے نہیں ڈرتے۔
قولہ… (قادیانی) کیونکہ ہمارے نزدیک حال کسی ٹھہرنے والے زمانہ کا نام نہیں ہے۔
اقول… (محمد بشیر) یہ امر مسلم ہے۔ بے شک زمانہ، نام مقدار غیرقار کا ہے اور حال ایک فرد ہے۔ زمانہ کا اور حد حقیقی حال کی باعتبار عرف کی یہی ہے کہ تکلم فعل کے پہلے زمانہ کا تو ماضی ہے اور تکلم فعل کے بعد کا زمانہ مستقبل ہے اور تکلم فعل کے مبداء سے منتہی تک زمانہ حال ہے۔ اس بناء پر ظاہر ہے کہ استقبال قریب ہرگز حال نہیں ہوسکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قول کے تکلم کا زمانہ بعد ہے۔ زمانہ تکلم ’’فلنولینک‘‘ سے۔ پس اس کے استقبال ہونے میں کیا شک ہے۔
قولہ… (قادیانی) جب آپ خود مستقبل قریب کے قائل ہوگئے۔ اسی طرح وہ بھی قائل ہیں۔