قولہ… (قادیانی) اور میں نے جو آپ کے قاعدہ نون ثقیلہ کا نام جدید رکھا تو اس کی یہ وجہ ہے کہ اگر آپ کا یہ قاعدہ تسلیم کر لیا جاوے۔ ’’نعوذ باﷲ‘‘ بقول آپ کے ابن عباسؓ جیسے صحابی کو جاہل ونادان قرار دینا پڑے گا۔
اقول… (محمد بشیر) میں نے تو وہی معنی جو تمام صحابی وتابعین وغیرہم سے منقول ہیں اور وہی قاعدہ جو عامہ مسلمین کا معمول رہا ہے۔ لکھے ہیں البتہ آپ کے مسائل مخترعہ کی بناء پر سارے صحابہ کو جاہل ماننا پڑتا ہے۔ فماہو جوابکم فہو جوابی! علاوہ اس کے اوّل صحابہ کے کلام میں کہیں تصریح معنی حال کی نہیں ہے۔ ان کا کلام معنی مستقبل پر بھی محمول ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ آپ تحریر اوّل میں اس امر کا اعتراف کر چکے ہیں۔ باقی رہا یہ امر کہ جن لوگوں نے ضمیر کتابی کی طرف پھیری ہے۔ وہ اس امر میں خطا پر ہیں۔ یہ کوئی مقام استبعاد نہیں۔ آپ بہت سے صحابہ کو اکثر مسائل میں خطا پر جانتے ہیں۔
قولہ… (قادیانی) اور قرأت قبل موتہم کو خواہ نخواہ افتراء قرار دینا پڑے گا۔
اقول… (محمد بشیر) خواہ نخواہ چہ معنی دارد! قرأت مذکور فی الواقع ضعیف ہے۔ لائق احتجاج نہیں۔ ’’کمامربیانہ آنفا‘‘
قولہ… (قادیانی) کیا آپ کا یہ نحوی قاعدہ ان اکابر کو جاہل قرار دے سکتا ہے اور کیا صدہا مفسرین کو بلکہ ہزارہا جواب تک یہ معنی کرتے آئے۔ وہ جاہل مطلق اور آپ کے نحو سے غافل تھے۔
اقول… (محمد بشیر) یہ قول سراسر مبنی سوء فہم پر ہے۔ معنی مذکور کا فساد اس وجہ سے نہیں کہ وہ مخالف ہے۔ قاعدہ نحو کے بلکہ یہ معنی تو سراسر موافق ہیں۔ قاعدہ نحو کے کیونکہ اس معنی پر تو مضارع صریح بمعنی استقبال کیاگیا ہے۔ ذرا سوچ کر جواب دیجئے۔
قولہ… (قادیانی) کوئی مبسوط تفسیر تو پیش کرو۔ جو ان معنوں سے خالی ہے۔ جس نے ان معنوں کو سب سے مقدم نہ رکھا۔ (الیٰ قولہ) بلکہ سب کے سب آپ ہی کے معنوں کو ضعیف ٹھہراتے ہیں۔
اقول… (محمد بشیر) دو بڑی تفسیریں معتبر پرانی پیش کرتا ہوں۔ ایک تفسیر ابن کثیر دوسری تفسیر ابن جریر کہ ان دونوں نے معنی مذکور کو مقدم نہیں رکھا اور نہ میرے معنی کو ضعیف کہا۔ بلکہ صحت کی تصریح کی ہے۔ پس اس مقام پر کذب۱۲؎ اس قول کا ’’کالشمس فی نصف النہار‘‘ ظاہر ہوگیا۔