اقول… (محمد بشیر) عموماً یہ بات غلط ہے۔ ہاں قرآٔت شاذہ جو بسند صحیح متصل کہ شذوذ دیگر علل خفیفہ غامضہ قادحہ سے خالی ہو۔ البتہ حکم حدیث صحیح کا رکھتی ہے اور ابھی واضح ہوا کہ اس کی سند میں دو رجال مجروح ہیں۔قولہ… (قادیانی) اب فرض کے طور پر اگر قبول کر لیں کہ اگر ابن عباسؓ اور علی ابن طلیحہؓ اور عکرمہؓ وغیرہ صحابہ ان معنوں کی سمجھ میں خطا پر تھے اور قرأت ابیؓ بن کعب بھی یعنی ’’قبل موتہم‘‘ کامل درجہ پر ثابت نہیں تو کیا آپ کے دعویٰ قطعیۃ الدلالت ہونے آیت ’’لیؤمنن بہ‘‘ پر اس کا کچھ بھی اثر نہ پڑا۔ کیا وہ دعویٰ جس کے مخالف صحابہ کرام بلند آواز سے شہادت دے رہے ہیں اور دنیا کی تمام مبسوط تفسیریں باتفاق اس پر شہادت دے رہی ہیں۔ اب قطعیۃ الدلالۃ ہے۔
اقول… (محمد بشیر) نہ صحابہ کا اتفاق خلاف پر ہے اور نہ تمام تفسیروں کا۔ ہاں دو قول مرجع ضمیر قبل موتہ میں البتہ منقول ہیں۔ اس سے البتہ قطعیۃ الدلالۃ اور صریح الدلالۃ ہونے میں فرق نہیں آتا ہے۔ اس۱۱؎ کے نظائر کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں۔ ’’من شاء فلیرجع الیہا‘‘ علاوہ اس کے اس بناء پر آپ کے ادلہ وفات میںسے آیت ’’انی متوفیک‘‘ آیت ’’فلما توفیتنی‘‘ وآیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ بھی نہ قطعیۃ الدلالت ٹھہرتی ہے۔ نہ صریحہ الدلالۃ کیونکہ ان آیات میں چند اقوال منقول ہیں۔ ’’فما ھو جوابکم فہو جوابنا‘‘
قولہ… (قادیانی) مگر آپ جانتے ہیں کہ اکابر صحابہ اور تابعین سے کسی گروہ نے آپ کے معنی قبول نہیں کئے ہیں۔
اقول… (محمد بشیر) یہ کذب صریح ہے۔ تحریر اوّل میں عبارت ابن کثیر نقل کی گئی ہے۔ اس سے ابن عباسؓ وابومالکؒ وحسن بصری وقتادہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیر واحد کا اس معنی کو قبول کرنا ثابت ہے اور ابوہریرہؓ کا اس معنی کا قبول کرنا صحیحین میں مصرح ہے۔ ابن کثیر نے کہا ہے کہ یہ معنی بدلیل قاطع ثابت ہیں اور بھی ابن کثیر میں ہے: ’’واولی ہذہ الاقوال بالصحۃ القول الاوّل وھو انہ لا یبقی احد من اہل الکتاب بعد نزول عیسیٰ علیہ السلام الا آمن بہ قبل موت عیسیٰ ولاشک ان ہذا الذی قالہ ابن جریر ھو الصحیح المقصود من سباق الآی فی تقریر بطلان ما اذعتہ الیہود من قتل عیسیٰ وصلبہ وتسلیم من سلم لہم من النصاریٰ الجہلۃ ذلک۔ انتہی (تفسیر ابن کثیر ج ص۴۰۲)‘‘