اور تفسیر مظہری والے کا یہ قول: ’’وکیف یصح ہذا التاویل ما ان کلمۃ ان من اہل الکتاب شامل للموجودین فی زمن النبیﷺ البۃ سواء کان ہذا الحکم خاصاً بہم اولافان حقیقۃ الکلام المحال ولاوجہ لان یراد بہ فریق من اہل الکتاب یوجدون حین نزول عیسیٰ علیہ السلام‘‘
مخدوش ہے اور مخالف ہے۔ عامہ تفاسیر کے، کیونکہ کلام کا حال کے لئے حقیقت ہونا اس تقدیر پر ہے کہ کوئی صارف نہ پایا جائے اور یہاں نون تاکید صارف موجود ہے اور یہی وجہ ہے۔ اس امر کی کہ اہل کتاب سے ایک فریق خاص مراد لیا جاوے۔ پس صاحب تفسیر مظہری کا یہ قول لاوجہ کوئی وجہ نہیں رکھتا۔
اور یہ جو تفسیر مظہری میں ہے: ’’اخرج ابن المنذر عن ابی ہاشم وعروۃ قال فی مصحف ابی بن کعب وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہم‘‘ مخدوش ہے کہ تفسیر مظہری میں اس قرآٔت کی پوری سند مذکور نہیں۔ ابن کثیر نے اس قرأت کو اس طرح پر روایت کیا ہے۔ ’’حدثنی اسحاق بن ابراہیم ابن حبیب الشہید حدثنا عتاب بن بشیر عن خصیف عن سعید بن جبیر عن ابن عباس وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہم‘‘
اس میں دوراوی مجروح ہیں۔ اوّل خصیف، دوم عتاب ابن بشیر۔
خصیف کے ترجمہ میں تقریب میں لکھا ہے: ’’صدوق سیٔ الحفظ خلط بآخرہ رمی بالارجائ‘‘
میزان میں ہے: ’’ضعفہ احمد وقال ابوحاتم تکلم فی سوء حفظہ وقال احمد ایضنًا تکلم فی الارجاء وقال عثمان بن عبدالرحمان رأیت علی خصیف ثیاباً سوادا کان علی بیت المال۔ انتہی ملخصاً‘‘
عتاب کے ترجمہ میں میزان میں مرقوم ہے: ’’قال احمد اتا عن خصیف بمنا کیر اراہا من قبل خصیف قال النسائی لیس ہذا لک فی الحدیث وقال ابن المدینی کان اصحابنا یضعفونہ وقال علی ضربنا علی حدیثہ۔ انتہی ملخصاً‘‘
قولہ… (قادیانی) اور بلاشبہ قرأت شاذہ حکم صحیح حدیث کا رکھتی ہے۔