اقول… (محمد بشیر) یہ طعن۸؎ بادنی تغیر آپ پر بھی وارد ہوتے ہیں۔ بلکہ جو آپ نے طعن کی ہے اس سے اشد ہے۔ یعنی آپ نے فرمایا ہے کہ آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ موت مسیح پر دلالت کرتی ہے اور آپ کی بعض عبارات سے مستنبط ہوتا ہے کہ یہ دلالت صریحی ہے۔ پس کیا اکابر مفسرین نے اس آیت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلیل ٹھہرایا ہے۔ ایک نے بھی نہیں۔
قولہ… (قادیانی) کشاف ص۱۹۹ میں ’’لیؤمنن بہ‘‘ کی آیت کے نیچے یہ تفسیر ہے۔
اقول… (محمد بشیر) اس عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ مرجع موتہ میں اختلاف ہے۔ مفسرین نے قطعیۃ الدلالۃ ہونے کی تصریح نہیں کی۔ کئی معنی لکھے ہیں۔ لیکن مفسرین کا قطعی الدلالۃ تصریح نہ کرنا قطعیۃ کو باطل نہیں کرتا۔ آپ۹؎ کے نزدیک ’’انی متوفیک‘‘ اور ’’فلما توفیتنی‘‘ قطعیۃ الدلالۃ ہے۔ موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حالانکہ مفسرین نے اس آیت کو حضرت عیسیٰ کی موت کے لئے قطعی الدلالۃ نہیں قرار دیا ہے۔ کچھ اور بھی معنی لکھے ہیں۔
قولہ… (قادیانی) پھر نووی میں یہ عبارت لکھی ہے۔
اقول… (محمد بشیر) نووی کی عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ اکثروں نے ضمیر موتہ کی کتابی کی طرف راجع کی ہے۔ اس سے آپ کے نزدیک بھی قطعیۃ الدلالۃ میں فرق نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ۱۰؎ کے نزدیک آیت ’’وانی متوفیک‘‘ وآیت ’’فلما توفیتنی‘‘ قطعیۃ الدلالۃ ہے۔ وفات مسیح پر حالانکہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے: ’’وقال الاکثرون المراد بالوفاۃ ہہنا النوم‘‘ اور ایسا ہی آپ کے نزدیک آیت: ’’وان من اہل الکتاب‘‘ دلیل صریح ہے۔ وفات مسیح پر اور حالانکہ وفات مسیح کا اس میں رائحہ بھی نہیں ہے۔ نہ برتقدیر اس قول کے جس کو نووی نے اکثرین کا قول قرار دیا ہے اور نہ برتقدیر قول آخر کے جو اس کا مقابلہ ہے۔ اس کے بعد آپ نے عبارت مدارک اور بیضاوی وتفسیر مظہری کی نقل کی ہے اور ہر ایک کا ترجمہ کر کے اوراق کو بڑھایا ہے اور حالانکہ ان سب سے اور کسی امر جدید کا فائدہ نہیں ہوا۔ سوائے اس کے ضمیر موتہ میں اختلاف ہے اور اوپر ثابت ہوا کہ مجرد اختلاف منافی قطعیت دلالت صریحہ کے نہیں۔ ورنہ چاہئے کہ آپ سے ادلہ وفات آیت ’’انی متوفیک‘‘ اور آیت ’’فلما توفیتنی‘‘ اور آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ ادلہ قطعیہ اور دلیل صریح نہ ہوں۔ ’’وھو خلاف ما ادعیتم‘‘