قولہ… (قادیانی) قرآن کریم ان کی غلطی ظاہر کرتا ہے اور اکابر صحابہ اس پر شہادت دے رہے ہیں۔
اقول… (محمد بشیر) ’’سبحانک ہذا بہتان عظیم (النور:۱۶)‘‘
قولہ… (قادیانی) اور اس خیال خام کی نحوست سے آپ کو تمام اکابر کی نسبت بدظنی کرنی پڑی۔
اقول… (محمد بشیر) آپ ان اکابر کا مطلب نہیں سمجھے۔ فافہم!
قولہ… (قادیانی) ابھی میں انشاء اﷲ تعالیٰ! یہ آپ پر ثابت کر دوں گا کہ آیت ’’لیؤمنن بہ‘‘ آپ کے معنوں پر اس صورت میں قطعیۃ الدلالۃ ٹھہر سکتی ہے۔ جب ان سب بزرگوں کے قطعی الجہالت ہونے پر فتویٰ لکھا جائے اور نعوذ باﷲ نبی معصوم کو بھی اس میں داخل کر دیا جائے۔اقول… (محمد بشیر) توضیح مرام سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ بتصریح وفات مسیح پر دلالت کرتی ہے۔
(ازالہ اوہام ص۸، خزائن ج۳ ص۵۴) میں مرقوم ہے: ’’اور قرآن شریف میں اگرچہ حضرت مسیح کے بہشت میں داخل ہونے کا بتصریح کہیں ذکر نہیں۔ لیکن ان کے وفات پاجانے کا تین جگہ ذکر ہے۔‘‘
حاشیہ میں وہ تین آیتیں آپ نے لکھی ہیں۔ ان میں سے آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ بھی ہے۔
(ازالہ اوہام ص۳۸۵، خزائن ج۳ ص۲۹۸) میں ہے: ’’غرض قرآن شریف میں تین جگہ مسیح کا فوت ہوجانا بیان کیاگیا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۰۳، خزائن ج۳ ص۴۲۵) میں ہے: ’’چوتھی آیت جو مسیح کی موت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ آیت ہے کہ ان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘
جاننا چاہئے کہ آپ کی یہ تقریر بادنی تغیر آپ پر منعکس۷؎ ہوجاتی ہے۔ تقریر اس کی یہ ہے کہ آیت ’’لیؤمنن‘‘ کے وفات مسیح پر اس وقت صریحۃ الدلالۃ ٹھہر سکتی ہے کہ ان سب بزرگوں کی جہالت پر فتویٰ لکھا جاوے۔ ’’نعوذ باﷲ‘‘ نبی معصوم کو بھی ان میں داخل کیا جاوے۔ ورنہ آپ کبھی اور کسی صورت میں دلالت کا فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔
قولہ… (قادیانی) اب میں آپ پر واضح کرتا ہوں کہ کیا اکابر مفسرین نے اس آیت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے لئے قطعیۃ الدلالۃ قرار دیا ہے یا کچھ اور بھی معنی لکھے ہیں۔