یا تو لغت صرف ونحو ومعانی واصول فقہ واصول حدیث کی اجماعی باتوں کو تسلیم کرنے کا اقرار کیجئے۔ یا بالفعل مناظرہ سب اہل اسلام سے موقوف کر کے ایک الگ کتاب علوم مذکورہ میں تصنیف فرمائیے اور جو کچھ ان علوم میں آپ کو ترمیم کرنا ہو وہ کر لیجئے۔ اس کے بعد مباحثہ کیجئے تاکہ آپ کی مسلمات سے آپ کو الزام دیا جاوے۔ ورنہ موافق اس طریق کے جو آپ نے اختیار کیا ہے کوئی عاقل کسی عاقل کو الزام نہیں دے سکتا۔
قولہ… (قادیانی) آپ جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں ’’ان ہذان لساحران‘‘ آیت موجود ہے۔
اقول… (محمد بشیر) اس کا جواب عامہ تفاسیر میں موجود ہے۔ عبارت بیضاوی کی اس مقام پر نقل کی جاتی ہے: ’’وہذان اسم ان علیٰ لغۃ بلحارث ابن کعب فانہم جعلوا الالف للتثنیۃ واعربوا المثنی تقدیراً وقیل اسمہا ضمیر الشان المحذوف وہذان لساحران خبرہا وقیل ان بمعنی نعم وما بعدہا مبتداء وخبر فیہما ان اللام لا یدخل خبر المبتداء وقیل اصلہ انہ ہذان لہما ساحران فحذف الضمیر وفیہ ان المؤکد باللام لا یلیق بہ الحذف‘‘
قولہ… (قادیانی) جس میں بجائے ان ہذان کے ان ہذین لکھا ہو۔
اقول… (محمد بشیر) یہ خطائے فاحش ہے۔ صواب یہ ہے کہ جس میں بجائے ان ہذین کے ان ہذان لکھا ہو۔
قولہ… (قادیانی) آپ کو یاد ہوگا کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ قواعد موجودہ صرف ونحو غلطی سے پاک ہیں۔ یا بہمہ وجوہ متمم ومکمل ہیں۔
اقول… (محمد بشیر) یہ بات اگر قواعد اختلافیہ کی نسبت کہی جائے تو مسلم ہے۔ لیکن قواعد اجماعیہ کی نسبت ایسا کہنا گویا دروازہ الحاد کا کھولنا اور سب احکام شرعیہ کا باطل کرنا ہے۔ کیونکہ قواعد جب غلط ٹھہرے خود عرب میں جاکر فی زماننا تحقیق لغت قواعد صرف ونحو غیرممکن۔ پس پابندی قواعد کی باقی نہ رہے گی۔ ہر شخص اپنی ہوا کے موافق قرآن وحدیث کے معنی کرے گا۔ آپ کو چاہئے کہ قواعد اجماعیہ کے تسلیم کا جلد اشتہار دے دیجئے یا کوئی کتاب لغت وقواعد صرف ونحو موافق قرآن وحدیث کے اپنے اجتہاد سے بنا کر جلد شائع کیجئے۔ تاکہ انہی قواعد کے بنا پر آپ سے بحث کی جاوے۔