یا عیسیٰ ابن مریم أنت قلت للناس (مائدہ:۱۱۶)‘‘ ظاہر ہے کہ قال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اوّل اذ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے۔
’’اتأمرون الناس بالبر وتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون (بقرہ:۴۴)‘‘
قولہ… (قادیانی) اور نہ ان بزرگوں کی عزت ومرتبت کا کچھ پاس کیا جو اہل زبان اور صرف اور نحو کو آپ سے بہتر جاننے والے تھے۔
اقول… (محمد بشیر) آپ ایسی باتیں کرنے سے لوگوں کو مغالطہ دینا چاہتے ہیں۔ بھلا صاحب اس قاعدہ کے جاری کرنے سے ان بزرگوں کی عزت ومرتبت میں معاذ اﷲ کس طرح نقصان آسکتا ہے۔ ان کے کلام میں تصریح حال یا استمرار کی کہاں ہے؟ یہ تو صرف آپ کا اجتہاد ہے۔ آپ اپنے ساتھ ان بزرگوں کو ناحق شریک کرتے ہیں۔
قولہ… (قادیانی) ہمارے اوپر اﷲ ورسول نے یہ فرض نہیں کیا کہ ہم انسانوں کے خود تراشیدہ قواعد صرف ونحو کو اپنے لئے ایسا رہبر قرار دیں کہ باوجودیکہ ہم پر کافی وکامل طور پر کسی آیت کے معنی کھل جائیں اور اس پر اکابر مؤمنین اہل زبان کی شہادت بھی مل جائے تو پھر بھی ہم اس قاعدہ صرف ونحو کو ترک نہ کریں۔
اقول… (محمد بشیر) یہ بھی آپ کی سراسر مغالطہ دہی پر مبنی ہے۔ کافی وکامل طور پر آیت کے معنی کا کھل جانا اور اس پر اکابر مؤمنین اہل زبان کی شہادت کا ملنا غیرمسلم ہے۔ ’’وجہہ مرانفاً فتذکر‘‘ علاوہ اس کے آپ نے جو باوجود نہ کھلنے معنی آیت کے اور عدم شہادت اکابر مؤمنین اہل زبان کے ایک قاعدہ نحویہ اجماعیہ کا محض اپنی بات بنانے کی غرض سے انکار کیا ہے۔ اس سے یہ احتمال قوی پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ کو الزام علوم لغت ونحو ومعانی اصول فقہ واصول حدیث سے جو کہ خادم کتاب وسنت ہیں، دیا جاوے گا تو آپ فوراً اس قاعدہ کا انکار کر جائیں گے اور یہ بات آپ کے علم ودیانت کے خلاف ہے۔ کیونکہ اہل علم کو ان علوم سے چارہ نہیں ہے اور ہم کو الفاظ قرآن وحدیث کے موافق لغت ومحاورہ عرب کے سمجھنا ضروری امر ہے۔ ورنہ کسی مسئلہ پر استدلال نہیں ہوسکتا ہے اور یہ امر ’’فی زماننا‘‘ غیرممکن ہے کہ خود عرب جاکر ہر لغت ومحاورہ اور جمیع قواعد صرف ونحو ومعانی وغیرہ کی تحقیق کی جاوے۔ پس اگر آپ کو کسی اہل اسلام سے مباحثہ کرنا منظور ہے تو پہلے ان دو کاموں سے ایک کام کیجئے اور اگر ایک بھی آپ قبول نہ کریں گے تو یہ امر آپ کی گریز پر محمول ہوگا۔