اور یہ دونوں تعریفیں آپ پر صادق آتی ہیں اور آپ کی تعریف مخالف ہے۔ ان دونوں تعریفوں کے۔
قولہ… (قادیانی) معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مولوی صاحب نے یہ دعویٰ تو کر دیا کہ ہم حیات جسمانی مسیح ابن مریم آیات قطیعۃ الدلالت سے پیش کریں گے۔ لیکن بحث کے وقت اس دعویٰ سے ناامیدی پیدا ہوگئی۔ اس لئے اب اس طرف رخ کرنا چاہتے کہ دراصل مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی ثابت کرنا ہمارے ذمہ نہیں۔
اقول… (محمد بشیر) یہ آپ کا سوء ظن ہے اور ہر مسلم مامور ہے۔ اپنے بھائی کے ساتھ حسن ظن کرنے کے لئے چہ جائیکہ آپ سا شخص مدعی الہام ومجددیت ومسیحیت۔ آپ کو بالاولی حسن ظن چاہئے۔ میں نے صرف ایک امر نفس الامری کا اظہار کر دیا۔ ورنہ میں تو بار ثبوت حیات اپنے ذمہ لے چکا ہوں اور اس کا ثبوت ایک قاعدہ نحویہ اجماعیہ کی بناء پر آپ کے روبرو پیش کیاگیا۔ مگر افسوس کہ آپ نے اس قاعدہ اجماعیہ کے انکار میں کچھ حیا کو کام نہ فرمایا۔
اب میں اس قاعدہ سے قطع نظر کر کے عرض کرتا ہوں۔ بفضلہ تعالیٰ میرا دعویٰ حیات مسیح آپ کے اقرار سے قطعی طور پر ثابت۶؎ ہے۔ بیان اس کا یہ ہے کہ آپ نے توضیح المرام وازالہ اوہام میں اس امر کا اقرار کیا ہے کہ ضمیر موتہ کی طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے راجع ہے۔ اب آپ چاہے قاعدہ نحویہ اجماعیہ کو مانئے یا نہ مانئے۔ ہر طرح میرا مدعا ثابت ہے۔ کیونکہ یا تو آپ لیؤمنن کو بمعنی استقبال لیجئے گا یا بمعنی حال یا بمعنی استمرار یا بمعنی ماضی۔
شق اوّل میں تو میرے مطلوب کا حاصل ہونا محتاج بیان نہیں ہے۔
شق ثانی، اوّل تو بدیہی البطلان ہے۔ سوا اس کے مطلوب اس سے بھی حاصل ہے۔ کیونکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ نزول آیت میں سب اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر قبل ان کی موت کے ایمان لاتے تھے۔ پس معلوم ہوا کہ زمان نزول آیت تک زندہ تھے اور رفع یقینا اس سے پہلے ہوا تو معلوم ہوا کہ زندہ اٹھائے گئے۔ وھو المطلوب!
شق ثالث، اوّل تو بدیہی البطلان ہے۔ سوا اس کے اس شق پر شق اوّل سے بھی زیادہ حصول مدعی ظاہر ہے۔ کیونکہ اس تقدیر پر یہ معنی ہوں گے کہ سب اہل کتاب زمانہ گذشتہ وحال واستقبال میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کے مرنے سے پہلے ایمان لاتے ہیں۔ پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ زمانہ ماضی وحال میں زندہ تھے اور استقبال میں بھی ایک زمانہ تک زندہ رہیں گے۔ رفع کے وقت زندہ تھے۔