مسیح فوت ہوگیا۔ پس اس وجہ سے آپ سے ثبوت مانگا جاتا ہے کہ آپ اپنے پہلے بیان کے مخالف دوسرا بیان کرتے ہیں اور اس دعویٰ میں ایک جدت ہے۔ جس کے آپ خود قائل ہیں اور اگر قبل سے یہ خیال تھا تو اس خیال کا یقین قانون قدرت یعنی سنت اﷲ وآیات قرآن سے آپ کو حاصل ہوگیا تھا یا نہیں؟
برتقدیر اوّل آپ نے قبل الہام مذکور براہین وغیرہ میں اس کو کیوں نہیں ظاہر فرمایا اور اپنے پرانے باطل خیال پر باوجود یقین بطلان کے کیوں اڑے رہے؟
اور تقدیر۵؎ ثانی بعد الہام کے اس خیال کا یقین آپ کو حاصل ہوا یا نہیں؟ اگر نہیں ہوا تو صرف ایک ظنی یا شکی یاوہمی بات پر اصرار خلاف دیانت ہے اور اگر بعد الہام کے یقین اس خیالی وفات کا آپ کو حاصل ہوا تو ظاہر ہے کہ مفید یقین اس وقت آپ کا الہام ہوا نہ سنت اﷲ وآیات قرآن کریم اور آپ کا ملہم ہونا ابھی تک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچا۔ اس تقدیر پر آپ پر واجب ہے کہ پہلے اپنا ملہم ہونا ثابت کیجئے۔ پھر ہر الہام کا حجت ہونا، ملہم وغیرملہم پر ثابت کیجئے۔ بعد اثبات ان دونوں امر کے دعویٰ وفات مسیح اور اپنے مسیح موعود ہونے کا پیش کیجئے۔ بغیر اس کے آپ کا دعویٰ وفات مسیح ومسیح موعود ہونے کا عند العقلاء ہرگز لائق سماعت نہیں ہے۔
سوم… اس مقام پر نصوص قرآنیہ قطعی طور پر وفات مسیح پر دلالت کرتی ہیں یا نہیں؟ برتقدیر ثانی آپ کا ان کو صریحہ بینہ قطعیہ کہنا باطل ہے اور برتقدیر اوّل لازم آتا ہے کہ آپ کے نزدیک وہ سب صحابہ وتابعین وتبع تابعین اور تمام مسلمین الیٰ یومنا جو حیات مسیح کے قائل ہیں۔ ’’اعاذنا اﷲ منہ‘‘ کافر ہوں اور آپ خود بھی جس زمانہ میں اعتقاد حیات مسیح کا رکھتے تھے کافر ہوں۔ کیونکہ منکر نصوص صریحۃ بینہ قطعیہ کا کافر ہوتا ہے۔
چہارم… آپ نے جو تعریف مدعی کی بیان کی ہے۔ یہ محض اپنی رائے سے بیان کی ہے یا کوئی دلیل کتاب اﷲ وسنت رسول اﷲ اس کے لئے ہے۔ یہ نہ سہی کوئی قول کسی صحابی یا تابعی یا کسی مجتہد یا محدث یا کسی فقیہہ کا اس کے ثبوت کے لئے پیش کیجئے۔
پنجم… یہ تعریف مدعی کی، مخالف ہے اس کے جس کو علماء مناظرہ نے لکھا ہے۔ رشیدیہ میں ہے: ’’والمدعی من نصب نفسہ لاثبات الحکم ای تصدی لان یثبت الحکم الجزی الذی تکلم بہ من حیث انہ اثبات بالدلیل اوالتنبیہ‘‘
مولانا عصام الملۃ والدین نے شرح رسالہ عضدیہ میں لکھا ہے: ’’المدعی من یفید مطابقۃ النسبۃ الواقع‘‘