احادیث صحیحہ میں بیان فرمایا ہے۔ آپ معلوم نہیں کہ کہاں سے کہاں چلے گئے۔ غور کر کے جواب لکھا کیجئے۔ اب انصاف سے غور فرمائیے کہ آپ کا یہ فرمانا کہ ان کا لفظ تو ایسا کامل حصر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک فرد بھی باہر رہ جائے تو یہ لفظ بے کار اور غیر مؤثر ٹھہرتا ہے۔ کیسا بے محل ہے۔ کیونکہ جس زمانہ کے لئے یہ حصر کیاگیا ہے۔ اس کی نسبت پورا حصر ہے اور ایسا ہی یہ فرمانا کہ اوّل تو آپ نے ان کے لفظ سے زمانہ قبل از نزول کو باہر کیا۔ پھر اب زمانہ بعد از نزول میں بھی اس کا پورا پورا اثر ہونے سے انکار کیا تو پھر اس لفظ کے لانے سے فائدہ ہی کیا تھا۔ محض بے موقع ہے۔ کیونکہ خاکسار نے از خود زمانہ قبل از نزول کو باہر نہیں رکھا اور نہ زمانہ بعد از نزول میں پورا پورا اثر ہونے سے انکار کیا۔ بلکہ یہ تو مقتضی نون ثقیلہ ولفظ قبل موتہ کا ہے جو کلام الٰہی میں واقع ہوا ہے اور ایسا ہی آپ کا یہ فرمانا کہ اب اگر ان کفار کو جو کفر پر مر گئے مؤمن ٹھہراتے ہیں یا اس جگہ ایمان سے مراد یقین رکھتے ہیں تو اس دعویٰ پر آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔ محض بے ربط ہے۔ کیونکہ خاکسار اس مقام پر نہ مدعی ان کے ایمان کا ہے اور نہ مدعی اس امر کا ہے کہ مراد ایمان سے یقین ہے۔ مقصود اس مقام پر صرف رفع تناقض ہے جو آپ نے درمیان آیت واحادیث کے سمجھا ہے۔ اس امر کے فیصلہ کے لئے خاکسار آپ کے دو معتقد خاص حکیم نورالدین اور مولوی سید محمد احسن امروہی کو حکم تسلیم کرتا ہے کہ آپ میری اس کلام کا مطلب بالکل نہیں سمجھے۔
قولہ… (قادیانی) یا حضرت آپ ان آیتوں پر متوجہ ہوں۔ (الیٰ قولہ) اب دیکھئے کہ قرآن مجید میں اﷲ جل شانہ کا صاف وعدہ ہے کہ قیامت کے دن تک دونوں فرقے متبعین اور کفار باقی رہیں گے۔
اقول… (محمد بشیر) اس میں کلام ہے۔ بدووجہ:
اوّل… یہ کہ آیت ’’وان من اہل الکتاب (نسائ:۱۵۹)‘‘ میں صاف وعدہ ہے کہ قبل موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سب اہل کتاب مؤمن ہو جائیں گے۔ پس یہ آیت مخصص ہے۔ آیت ’’وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ (آل عمران:۵۵)‘‘ کی۔
دوم… احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قبل قیامت سب شریر رہ جائیں گے۔ جن پر قیامت قائم ہوگی۔ پس معلوم ہوا کہ آیت عام مخصوص البعض ہے۔
قولہ… (قادیانی) پھر اﷲ جل شانہ فرماتا ہے۔ ’’فاغرینا بینہم العداوۃ والبغضاء