قولہ… (قادیانی) آپ کے نون ثقیلہ کا حال تو معلوم ہوچکا۔
اقول… (محمد بشیر) آپ نے نون تقیلہ کے بارہ میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ سب ’’ہباء منبثا‘‘ ہوگیا۔
قولہ… (قادیانی) اور ’’لیؤمنن‘‘ کے لفظ کی تعمیم بدستور قائم رہی۔
اقول… (محمد بشیر) جب یہ امر ثابت ہوگیا کہ نون مضارع کو خالص استقبال کے لئے کر دیتا ہے تو اب تعمیم کہاں قائم رہی۔
قولہ… (قادیانی) اب فرض کے طور پر اگر آیت کے یہ معنی لئے جاویں کہ حضرت عیسیٰ کے نزول کے وقت جس قدر اہل کتاب ہوں گے۔ سب مسلمان ہو جائیں گے۔ جیسا کہ ابومالکؒ سے آپ نے روایت کیا ہے تو مجھے مہربانی فرماکر سمجھادیں کہ یہ معنی کیونکر درست ٹھہرسکتے ہیں۔
اقول… (محمد بشیر) آپ نے اس معنی کی تقریر میں جو میرے نزدیک متعین ہیں۔ تھوڑی سی خطا کی ہے۔ آیت کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت جس قدر اہل کتاب ہوں گے سب مسلمان ہو جائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد اور ان کی موت سے پہلے ایک زمانہ ایسا ضرور ہوگا کہ اس وقت کے اہل کتاب سب مسلمان ہو جائیں گے اور ابومالکؒ کے کلام کا بھی یہی مطلب ہے۔ ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیے۔
قولہ… (قادیانی) آپ تسلیم کر چکے ہیں۔ (الی قولہ) پھر اس لفظ کے لانے سے فائدہ کیا ہے۔
اقول… (محمد بشیر) حضرت من! اس مقام پر بھی آپ نے میرے مطلب پر مطلق غور نہیں کیا۔ اس لئے میں پھر اس تقریر کا اعادہ کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اگر آپ توجہ فرمائیں گے تو سمجھ میں آجائے گا اور تسلیم بھی کر لیجئے گا۔
حاصل میری کلام کا یہ ہے کہ آپ کے اعتراض کا جواب بدوطور ہے:
اوّل… یہ کہ آیت سے یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ مسیح کے نزول کے فوراً بعد سب اہل کتاب ایمان لے آویں گے۔ بلکہ یہ کہ بعد نزول مسیح اور قبل موت مسیح ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ میں سب اہل کتاب ایمان لے آویں گے۔ پس احادیث صحیحہ اس کے منافی نہ ہوئیں۔ کیونکہ جو کفار مسیح کے دم سے مرنے والے ہوں گے وہ پہلے مریں گے۔ باقی ماندہ سب ایمان لے آویں گے۔
دوم… یہ کہ مراد ایمان سے یقین ہو نہ ایمان شرعی۔ اس تقدیر پر بھی احادیث صحیحہ آیت کے اس معنی کے معارض نہیں ٹھہرتی ہیں۔ الحاصل مقصود دفع تعارض ہے جو آپ نے آیت کے معنی اور