قولہ… (قادیانی) اب میں آپ کے اس قاعدہ کو توڑ چکا کہ نون ثقیلہ کے داخل ہونے سے خواہ مخواہ اور ہر ایک جگہ خاص طور پر استقبال کے معنی ہی ہوا کرتے ہیں۔
اقول… (محمد بشیر) بالامعلوم ہوا کہ آپ نے جتنی آیتیں ذکر کی ہیں۔ سب میں مراد معنی مستقبل ہے۔ نہ حال اور نہ استمرار۔
قولہ… (قادیانی) اور آپ کو معلوم ہے کہ تمام مفسرین قدیم وجدید جن میں عرب کے رہنے والے بھی داخل ہیں۔ لیؤمنن کے لفظ کے حال کے معنی بھی کرتے ہیں۔
اقول… (محمد بشیر) ان لوگوں کے کلام میں کہیں تصریح حال کی نہیں ہے۔ محتمل ہے کہ ان کی مراد استقبال ہو۔ جیسا کہ آپ خود اوپر لکھ چکے ہیں۔ کیا استقبال کے طور پر دوسرے معنی بھی نہیں ہوسکتے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے۔ دیکھو یہ بھی تو خالص استقبال ہی ہے۔ اگر کوئی شبہ کرے کہ پھر اس دوسرے معنی کا رد قاعدہ مقررہ نحاۃ کے موافق کیسے ہوگا۔ تو جواب یہ ہے کہ بے شک اس صورت میں قاعدہ مقررہ کی بناء پر البتہ رد نہ ہوسکے گا۔ بلکہ اس کا رد منوط ہوا۔ امر آخر پر جس کا ذکر اوپر ہوچکا۔ یعنی یہ کہ اس صورت میں کلام الٰہی اعلیٰ درجہ بلاغت سے نازل ہوا جاتا ہے۔ ’’فلیتأمل فانہ احری بالتأمل‘‘
قولہ… (قادیانی) اور آپ نے تفسیر ابن کثیر کے حوالہ سے جو لکھا ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام ہوگا اور کوئی اہل کتاب میں سے نہیں ہوگا جو اس کے نزول کے بعد اس پر ایمان نہیں لائے گا۔ یہ بیان آپ کے لئے کچھ مفید نہیں۔ (الیٰ قولہ) اور پھر اس قول کو ما نحن فیہ سے تعلق کیا ہے۔
اقول… (محمد بشیر) اس مقام پر آپ نے میرے کلام کو غور سے ملاحظہ نہین فرمایا۔ میرا مطلب وہ نہیں جو آپ سمجھے ہیں۔ میرا مطلب تو عبارت ابن کثیر کی نقل سے صرف اس قدر ہے کہ یہ معنی جو میں نے اختیار کئے ہیں۔ اس طرف ایک جماعت سلف میں سے گئی ہے اور یہ امر میری تحریر میں مصرح ہے۔ چنداں غور کا بھی محتاج نہیں ہے۔
قولہ… (قادیانی) واضح رہے کہ آپ اس عاجز کے اعتراصات کو جو ازالہ اوہام میں آیت موصوفہ بالا کے ان معنوں پر وارد ہوتے ہیں جو آپ کرتے ہیں۔ اٹھانہیں سکے۔ بلکہ رکیک عذرات سے میرے اعتراضات کو اور بھی ثابت کر دیا۔
اقول… (محمد بشیر) میرے ادلہ کا قوی ہونا ابھی ثابت ہوچکا۔ پس یہ آپ کا فرمانا بجائے خود نہیں ہے۔