قولہ… (قادیانی) دوسری یہ آیت ’’کتب اﷲ لا غلبن انا ورسلی‘‘
اقول… (محمد بشیر) یہاں ارادہ استمرار قطعاً باطل ہے اور ارادہ استقبال متعین بدووجہ:
اوّل… یہ کہ بیضاوی میں لکھاہے: ’’کتب اﷲ فی اللوح لاغلبن انا ورسلی بالحجۃ‘‘ ظاہر ہے کہ لوح محفوظ میں جب لکھا ہے۔ اس وقت اور اس سے پہلے غلبہ متصور نہیں ہے۔ کیونکہ غلبہ کے لئے غالب ومغلوب ضروری ہے۔ اس وقت نہ رسل تھے نہ ان کی امت تھی۔ یہ سب بعد ان کے ہوئے ہیں۔
دوم… تراجم ثلاثہ استقبال پر دلالت کرتے ہیں۔ لفظ شاہ ولی اﷲؒ کا یہ ہے: ’’حکم کرد خدا البتہ غالب شوم من وغالب شوند پیغمبران من۔‘‘
لفظ شاہ رفیع الدینؒ کا یہ ہے: ’’لکھ رکھا ہے خدا نے البتہ غالب آؤں گا میں اور پیغمبر میرے۔‘‘
لفظ شاہ عبدالقادرؒ کا یہ ہے: ’’اﷲ لکھ چکا کہ میں زبر ہوں گا اور میرے رسول۔‘‘
قولہ… (قادیانی) تیسری آیت یہ ہے: ’’من عمل صالحاً من ذکر اوانثی وھو مؤمن فلنحیینہ حیوۃً طیبۃ ولنجزینہم اجرہم باحسن ماکانوا یعملون (نحل:۹۷)‘‘
اقول… (محمد بشیر) اس آیت میں بھی استقبال مراد ہے۔ بچندہ وجوہ:
اوّل… یہ کہ یہ وعدہ ہے ۔ تفسیر ابن کثیر میں مرقوم ہے : " ھذا وعد من اللہ تعالیٰ فمن عمل صالحا وھو العمل المتابع الکتاب اللہ و سنۃ نبیہﷺ من نکر لو انثی من بنی آدم و قلبہ مؤمن باللہ ورسولہ و ان ھذا العمل المعمور بہ مشروع من عنداللہ بان یعی اللہ حیوۃ طیبہ فی الدنیا و ان یجزیہ باحسن ما عملہ فی الدار و الآخرۃ ( تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 516 ) "
اور جس کا وعدہ ہوتا ہے وہ چیز وعدہ کے بعد پائی جاتی ہے۔
دوم… تراجم ثلاثہ سے استقبال معلوم ہوتا ہے۔ لفظ شاہ ولی اﷲؒ کا یہ ہے: ’’ہر کہ عمل نیک کرد مرد باشد یازن واومسلمان است ہرانیہ زندہ کنمش بزندگانی پاک۔‘‘
لفظ شاہ رفیع الدینؒ کا یہ ہے: ’’جو کوئی کرے اچھا مردوں سے یا عورتوں سے اور وہ ہو ایمان والا۔ پس البتہ زندہ کریں گے ہم اس کو زندگی پاکیزہ۔‘‘