اقول… (محمد بشیر) ارادہ حال اس آیت میں غلط ہے۔ بدووجہ:
اوّل… یہ کہ آیت میں وعید ہے اور جس چیز کی وعید کی جاتی ہے وہ اس کے بعد متحقق ہوتی ہے۔ پس استقبال یہاں متعین ہوا۔
دوم… یہ کہ تراجم ثلاثہ سے معنی استقبال واضح ہیں۔ عبارت شاہ ولی اﷲ کی یہ ہے: ’’البتہ بسوزا نیم آنرا پس پراگندہ سازیم آنرا۔‘‘
لفظ شاہ رفیع الدینؒ کا یہ ہے: ’’ابھی جلادیں گے ہم اس کو پھر اڑاویں گے ہم اس کو۔‘‘
لفظ شاہ عبدالقادرؒ کا یہ ہے: ’’ہم اس کو جلادیں گے پھر بکھیر دیں گے۔‘‘
ان دونوں آیتوں میں جو مرزاقادیانی نے حال کے معنی سمجھے تو منشاء غلط یہ معلوم ہوتا ہے کہ استقبال دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک استقبال قریب دوسرا استقبال بعید۔ مرزاقادیانی استقبال قریب کو قرب کی وجہ سے حال سمجھ گئے ہیں۔
قولہ… (قادیانی) اور دوسری آیات جو حال اور استقبال کے سلسلہ متصلہ ممتدہ پر استمرار کے طور پر مشتمل ہیں۔ ان کی نظیر ذیل میں پیش کرتا ہوں۔ پہلی یہ آیت: ’’والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا (عنکبوت:۶۹)‘‘
اقول… (محمد بشیر) اس میں کلام ہے بدووجہ:
اوّل… یہ کہ یہ امر مسلم ہے کہ اﷲتعالیٰ کی یہ عادت مستمرہ ہے کہ مجاہدہ کرنے والوں کو اپنی راہیں دکھلایا کرتا ہے۔ لیکن یہاں اس عادت کا بیان مقصود نہیں۔ مقصود بالذات صرف وعدہ ہے اور امر موعود وعدہ کے بعد متحقق ہوتا ہے۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے آیت ’’وان من اہل الکتاب‘‘ کے معنی دوم کی تائید میں بیان فرمایا ہے اور تصحیح خالص استقبال کی، کی ہے۔ حالانکہ اہل کتاب کا زہوق روح کے وقت ایمان لانا امر مستمر ہے۔ خصوصیت کسی زمانہ کی اس میں نہیں۔
دوم… یہ کہ تراجم ثلاثہ تعیین استقبال کرتے ہیں۔ لفظ شاہ ولی اﷲؒ کا یہ ہے: ’’وآنانکہ جہاد کردند در راہ ماالبتہ دلالت کنیم ایشاں را براہ ہائے خود‘‘
عبارت شاہ رفیع الدینؒ یہ ہے: ’’اور جن لوگوں نے محنت کی بیچ راہ ہمارے کے البتہ دکھا دیں گے ہم ان کو راہیں اپنی۔‘‘
عبارت شاہ عبدالقادرؒ کی یہ ہے: ’’اور جنہوں نے محنت کی ہمارے واسطے ہم سمجھا دیں گے ان کو اپنی راہیں۔‘‘