سہارنپوریؒ کے ایک اور ہمنام حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ مدرسہ مظاہر العلوم مدرس تھے۔ جو مدرسہ کی اعانت کے لئے ۱۹؍جولائی ۱۸۹۵ء کو ڈیرہ دون تشریف لائے۔ ان دنوں محمد احسن امروہی کادیانی بھی ڈیرہ دون آیا ہوا تھا۔ حسب عادت قادیانیاں احسن امروہی کادیانی نے مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کو دعوت قادیانیت دی۔ جواب میں دونوں حضرات کا مباحثہ طے پاگیا۔ اس کی تفصیل اس رسالہ میں مولانا دوست محمد خانؒ نے تحریر فرمائی۔ جس کے پڑھنے سے احسن امروہی کی ذلت آمیز شکست فاش کا نقشہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ ایک سو سترہ(۱۱۷) سال بعد اس کی اشاعت کی حق تعالیٰ نے توفیق بخشی۔ فلحمد للّٰہ تعالیٰ!
۵… رقیمۃ الاخلاص: مولانا احمد علی سہارنپوریؒ سے شکست فاش کے داغ کو دھونے کے لئے قادیانی احسن امروہی نے تحریری مکالمہ کے لئے ڈول ڈالا۔ مولانا خلیل الرحمن نے اس کے چیلنج کو قبول کر کے تحریری مکالمہ کا آغاز کر دیا۔ غرض کادیانی احسن امروہی اور مولانا خلیل الرحمنؒ کے درمیان جو تحریری مکالمہ ہوا وہ بتمام وبکمال مولانا دوست محمد خانؒ نے مرتب کر کے ’’رقیمۃ الاخلاص‘‘ کے نام پر ۲۴؍اگست ۱۸۹۵ء کو شائع فرمادیا۔ جو اس جلد میں شامل ہے۔
۶… نصرۃ الحق فی رد القول الزاہق: احسن امروہی کادیانی جب ان تمام کاروائیوں میں رسواء ہوا تو اس نے ایک رسالہ ’’سواء السبیل‘‘ شائع کیا۔ جس کا حضرت مولانا خلیل الرحمن صاحبؒ نے ’’نصرۃ الحق فی رد قول الزاہق‘‘ تحریر فرمایا۔ اس کے آخر میں منشی سعد اﷲ لدھیانویؒ کی بعض نظموں کو بھی شامل کیاگیا۔ یہ رسالہ بھی اگست ۱۸۹۵ء کا مرتب کردہ ہے جسے اس جلد میں شامل کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔
۷… اعلاء الحق الصریح بتکذیب المسیح: مرزاکادیانی کے نفس ناطقہ احسن امروہی کادیانی کی کتاب ’’اعلام الناس‘‘ کے جواب میں مولانا محمد اسماعیل علی گڑھیؒ نے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ اس جلد میں اس کتاب کو شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جس کے متعلق کذاب کادیان نے ایک بدبودار جھوٹ تراشا تھا۔ جس کی سڑاند سے