۔ پس کیا یہی مقتضائے دیانت وانصاف ہے کہ جس چیز کو وہ خود نفس الامر میں غیر صحیح جانتے ہیں۔ اس کو بمقابلہ خصم صحیح بنا دیں تو یہ مناظرہ نہ ہوا۔ محض مجادلہ ٹھہرا۔
قولہ… (قادیانی) پہلی آیات کی نظیر یہ کہ اﷲ جل شانہ فرماتا ہے۔ ’’ولنولینک قبلۃ ترضاھا فول وجہلک شطر المسجد الحرام (بقرہ:۱۴۴)‘‘ اب ظاہر ہے کہ اس جگہ حال مراد ہے۔
اقول… (محمد بشیر) قرآن مجید میں ’’فلنولینک‘‘ ہے نہ ’’ولنولینک‘‘ جیسا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ یہاں ارادہ حال محض غلط ہے۔ بلکہ یہاں خالص مستقبل مراد ہے۔ بچندہ وجوہ:
اوّل… یہ کہ بیضاوی میں مرقوم ہے۔ ’’فول وجہک واصرف وجہک شطر المسجد الحرام‘‘ونحوہ عبدالحکیم ’’واصرف وجہک‘‘ کے تحت میں لکھتے ہیں: ’’ولم یجعلہ من المتعدی الیٰ المفولین بان یکون شطر مفعولہ الثانی لان تربتہ بالفاء وکونہ انجاز اللوعد بان اﷲ تعالیٰ یجعل النبی متقبلا القبلۃ او قریباً من سمتہا بان یأمر بالصلوۃ الیہا یناسبہ ان یکون النبی ماموراً بصرف الوجہ الیہا لا بان یجعل نفسہ مستقبلاً ایاہا اوقریباً من جہتہا‘‘
اس عبارت میں صاف ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے قول ’’فلولینک‘‘ میں وعدہ فرمایا اور ’’فول وجہک‘‘ کے ساتھ اس کا انجاز کیا۔
دوم… یہ کہ اگر یہاں حال مراد لیا جائے تو ’’فلنولینک‘‘ کے یہ معنی ہوں گے۔ پس البتہ پھیرتے ہیں ہم تجھ کو اور پھیرنے سے یہ تو مراد ہی نہیں کہ ہم تجھ کو ہاتھ پکڑ کے قبلہ کی طرف پھیرتے ہیں۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم تجھ کو قبلہ کی طرف پھرنے کا حکم کرتے ہیں۔ اس تقدیر پر قول اﷲ تعالیٰ کا ’’فول وجہک‘‘ زائد ولاطائل ہوگا۔
سوم… یہ کہ شاہ ولی اﷲ، وشاہ رفیع الدین، وشاہ عبدالقادر نے ترجمہ اس لفظ کا بمعنی مستقبل کیا ہے۔ عبارت شاہ ولی اﷲ کی یہ ہے۔ پس متوجہ گردانیم ترابآں قبلہ کہ خوشنودشوی۔
لفظ شاہ رفیع الدین کا یہ ہے۔ پس البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو اس قبلہ کو کہ پسند کرے اس کو شاہ عبدالقادر کا ترجمہ یہ ہے۔ سو البتہ پھریں گے تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے۔
قولہ… (قادیانی) اور ایسا ہی یہ آیت ’’وانظر الیٰ الہک الذی ظلت علیہ عاکفا لنحرقنہ (طہ:۹۷)‘‘