لیؤمنن اختیار کیا جاوے کہ جس میں ایہام خلاف نفس الامر ہے اور اطناب بلافائدہ اور یہ سب محذور خالص معنی استقبال پر حمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
محصل کلام اس مقام پر یہ ہے کہ معنی دوم آیت کے بہر تقدیر باطل ہے۔ اگر خالص استقبال پر محمول کیجئے تو کلام حق تعالیٰ جو بلاغت میں حد اعجاز کو پہنچ چکا ہے۔ بلاغت سے گرایا جاتا ہے اور اگر خالص استقبال پر محمول نہ کیجئے تو مخالف ہوتا ہے۔ قاعدہ مجمع علیہا نحاۃ کے۔
قولہ… (قادیانی) بلکہ ان معنوں پر آیت کی دلالت صریحہ ہے۔ اس واسطے کہ دوسری قرآٔت میں یوں آیا ہے۔ جو بیضاوی وغیرہ میں لکھا ہے۔ ’’الا لیؤمنن بہ قبل موتہم‘‘
اقول… (محمد بشیر) اس میں کلام ہے بچند وجوہ۔
اوّل… یہ کہ اس قرأت کی بناء پر بھی معنی دوم صحیح نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ لیؤمنن کو یا تو خالص استقبال پر محمول کیا جائے گا تو کلام حق تعالیٰ جو بلاغت میں حد اعجاز کو پہنچ گیا ہے۔ بلاغت سے نازل ہو جاتا ہے اور اگر خالص استقبال پر محمول نہ کیجئے تو مخالف ہوتا ہے۔ قاعدہ مجمع علیہا نحاۃ کے۔
دوم… یہ کہ یہ قرأت ہماری معنی کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ اس قرأت پر یہ معنی ہیں کہ ہر اہل کتاب اپنے مرنے سے پہلے زمانہ آئندہ میں مسیح پر ایمان لاوے گا اور یہ معنی، معنی اوّل کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پر کہ زمانہ آئندہ سے زمانہ نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد لیا جاوے۔
سوم… یہ کہ یہ قرأۃ غیرمتواترہ ہے اور قرأت غیرمتواترہ عموماً قابل احتجاج نہیں ہے۔ بلکہ جب بسند صحیح متصل منقول ہو اور یہاں سند متصل صحیح اس کی مرزاقادیانی نے تحریر نہیں فرمائی۔ مرزاقادیانی پر واجب ہے کہ اس کی سند بیان فرماویں اور اس کے سب رجال کی توثیق کریں۔ ودونہ خرط القتاد!
چہارم… ۳؎یہکہ مرزاقادانی نے قبل موتہ کی ضمیر توضیح المرام اور ازالۃ الاوہام میں جو الہامی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع کی ہے اور یہ قرأت اس خیال کو بکلی باطل ٹھہرارہی ہے۔ مرزاقادیانی یہ تو خیال فرماویں کہ وہ معنی کہ جس کی تصحیح وتقویت کے وہ آپ درپئے ہیں اور یہ محض بغرض توڑنے دعویٰ اس خاکسار کے ہے وہ خود نفس الامر میں ان کے نزدیک غیر صحیح ہیں۔ کیونکہ اس تقدیر پر استدلال ان کا موت مسیح پر آیت وان من اہل الکتاب سے مطلق غیر صحیح ٹھہرتا ہے