قولہ… (قادیانی) چنانچہ انہوں نے اپنے خیال میں اس مدعا کے اثبات کے لئے قرآن کریم سے نظیر کے طور پر ایسے الفاظ نقل کئے ہیں۔ جن کی وجہ سے ان کے زعم میں مضارع استقبال ہوگیا ہے۔
اقول… (محمد بشیر) خاکسار کی اصل دلیل اتفاق آئمہ نحات کا ہے۔ اس قاعدہ پر اس کا جواب مرزاقادیانی نے مطلق نہیں دیا۔ ہاں آیات اس قاعدہ کی تائید کے لئے البتہ لکھی گئی ہیں۔ مرزاقادیانی پر واجب ہے کہ اس قاعدہ کو توڑنے کے لئے کوئی عبارت کسی کتاب معتبر نحو کی پیش کریں۔
قولہ… (قادیانی) کیا استقبال کے طور پر یہ دوسرے معنی بھی نہیں ہوسکتے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا۔
اقول… (محمد بشیر) مخفی نہ رہے کہ اس معنی کا مناط اس پر ہے کہ اختصار کے وقت ہر شخص پر وہ حق کھل جاتا ہے جس کو وہ نہ جانتا تھا۔ جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے اور یہ امر نفس الامر میں تینوں زمانون کو شامل ہے۔ یعنی نزول آیت کے قبل کا زمانہ اور وقت نزول کا زمانہ اور بعد کا زمانہ۔ اب آیت اگر خالص استقبال کے لئے کیجئے گا تو یہ شبہ ہوگا کہ یہ امر زمانہ حال کو شامل نہیں ہے اور یہ خلاف نفس الامر ہے۔ پس اس کلام میں یہ عیب ہوا کہ خلاف نفس الامر کا موہم ہے اور فائدہ کوئی نہیں ہے۔ اگر کہا جاوے کہ اس آیت میں وعید ہے اہل کتاب کے لئے اور تحریض ہے ان کو ایمان لانے پر قبل اس کے کہ مضطر ہوں اس کی طرف، جیسا کہ بیضاوی وغیرہ میں لکھا ہے اور اس وعید وتحریص سے وہی اہل کتاب منتفع ہوسکتے ہیں جو بعد نزول آیت کے مرنے والے ہیں۔ نہ وہ جو پہلے مرچکے اور نہ وہ جو وقت نزول کے زہوق روح کی حالت میں تھے۔ اس فائدہ کے لئے تخصیص استقبال کی گئی تو جواب یہ ہے کہ اگر ایسا لفظ اختیار کیا جاتا جو تینوں زمانوں کو شامل ہوتا تو بھی وعید وتحریص ان اہل کتاب کی حاصل ہوتی جو بعد نزول آیت کے مرنے والے ہیں اور خلاف نفس الامر کا بھی موہم نہ ہوتا۔ یعنی بجائے ’’لیؤمنن‘‘ کے لفظ ’’یؤمن‘‘ اختیار کیا جاتا۔ یعنی یوں کہا جاتا: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘
یہ عبارت ایسی عمدہ ہوتی ہے کہ اس میں وعید وتحریض جو مطلوب ہے۔ وہ بھی حاصل ہے اور موہم خلاف نفس الامر بھی نہیں ہے اور اختصار بھی حاصل ہے۔ یعنی لام ونون نہیں۔ پس قرآن مجید کی بلاغت جو حد اعجاز کو پہنچ گئی ہے۔ خلاف ہے کہ ایسی عبارت کو چھوڑ کر بجائے اس کے