۳؎ ’’اس جگہ اس بات کا بیان کرنا بھی بے موقعہ نہ ہوگا کہ جو کچھ ہم نے روح القدس اور روح الامین وغیرہ کی تعبیر کی ہے یہ درحقیقت ان عقائد سے جو اہل اسلام ملائک کی نسبت رکھتے ہیں منافی نہیں ہے۔ کیونکہ محققین اہل اسلام ہر گز اس بات کے قائل نہیں کہ ملائک اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اترتے ہیں۔‘‘
(توضیح المرام ص۲۹،۳۰، خزائن ج۳ ص۶۶)
۴؎ ’’پس اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اس کی گرمی وروشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہر ایک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ ان کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یادساتیر اور وید کے اصطلاحات کے موافق ارواح کواکب سے ان کو نامزد کریں یا نہایت سیدھے اور موحدانہ طریق سے ملائک اﷲ کا لقب دین۔‘‘ (توضیح المرام ص۳۲،۳۳، خزائن ج۳ ص۶۷،۶۸)
’’مثلاً جبرائیل جو ایک عظیم الشان فرشتہ ہے اور آسمان کے ایک نہایت روشن نیر (سورج) سے تعلق رکھتا ہے اس کو کئی قسم کی خدمات سپرد ہیں۔ انہیں خدمات کے موافق جو اس کی نیر سے لئے جاتے ہیں۔ سو وہ فرشتہ اگرچہ ہر ایک ایسے شخص پر نازل ہوتا ہے جو وحی الٰہی سے مشرف کیا گیا ہو۔ (نزول کی اصل کیفیت جو صرف اثر اندازی کے طور پر ہے نہ واقعی طور پر یاد رکھنی چاہئے) لیکن اس کے نزول کی تاثیرات کا دائرہ مختلف استعدادوں اور مختلف ظرف کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی یا بڑی بڑی شکلوں پر تقسیم ہو جاتا ہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۶۸، خزائن ج۳ ص۸۶)
’’اور جبرائیلی نور کا چھیالیسواں حصہ تمام جہانوں میں پھیلا ہوا ہے۔ جس سے کوئی فاسق اور فاجر اور پرلے درجہ کا بدکار بھی باہر نہیں بلکہ میں یہاں تک مانتا ہوں کہ تجربہ میں آچکا ہے کہ بعض اوقات ایک نہایت درجہ کی فاسقہ عورت جو کنجریوں کے گروہ میں سے ہے۔ جس کی تمام جوانی بدکاری ہی میں گذری ہے۔ کبھی سچی خواب دیکھ لیتی ہے اور زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ ایسی عورت کبھی ایسی رات میں بھی کہ جب وہ بادہ بسر وآشنا ببر کا مصداق ہوتی ہے کوئی خواب دیکھ لیتی ہے اور وہ سچی نکلتی ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ کیونکہ جبرائیلی نور آفتاب کی طرح جو اس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ تمام معمورہ عالم پر حسب استعداد ان کی اثر ڈال رہا ہے اور کوئی نفس بشر دنیا میں ایسا نہیں کہ بالکل تاریک ہو۔ کم سے کم ایک ذرہ سی محبت وطن اصلی اور محبوب اصلی کی ادنیٰ سے ادنیٰ سرشت میں بھی ہے۔ اس صورت میں نہایت ضروری تھا کہ تمام بنی آدم پر یہاں تک کہ ان کی مجانین پر بھی کسی قدر جبرائیل کا اثر ہوتا اور فی الواقعہ ہے بھی۔‘‘ (توضیح المرام ص۸۵، خزائن ج۳ ص۹۰)