حاشیہ جات
۱؎ نقوش حرفوں کی شکلیں جو قلم سے لکھی جاتی ہیں اور الفاظ وہ آوازیں جو ان نقوش کے پڑھنے سے پیدا ہوتی ہیں اور جس مراد سے لفظ بولے جاتے ہیں۔ اس مراد کو ان لفظوں کے معانی کہتے ہیں۔
۲؎ ’’اگر یہ استفسار ہو کہ جس خاصیت اور قوت روحانی میں یہ عاجز اور مسیح بن مریم مشابہت رکھتے ہیں وہ کیا شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک عمومی خاصیت ہے جو ہم دونوں کے روحانی قوی میں ایک خاص طور پر رکھی گئی ہے۔ جس کے سلسلہ کی ایک طرف نیچے کو اور ایک طرف اوپر کو جاتی ہے۔ نیچے کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی دلسوزی اور غمخواری خلق اﷲ ہے جو داعی الیٰ اﷲ اور اس کے مستعدد شاگردوں میں ایک نہایت مضبوط تعلق اور جوڑ بخش کرنورانی قوت کو جو داعی الیٰ اﷲ کے نقش پاک میں موجود ہے۔ ان تمام سرسبز شاخوں میں پھیلاتی ہے۔ اوپر کی طرف سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی محبت قوی ایمان سے ملی ہوئی ہے جو اوّل بندہ کے دل میں بارادہ الٰہی پیدا ہوکر رب قدیر کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور پھر ان دونوں محبتوں کے ملنے سے جو درحقیقت نر اور مادہ کا حکم رکھتی ہیں ایک مستحکم رشتہ اور ایک شدید مواصلت خالق اور مخلوق میں پیدا ہوکر الٰہی محبت کی چمکنے والی آگ سے جو مخلوق کی ہیزم مثال محبت کو پکڑ لیتی ہے۔ ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کا نام روح القدس ہے۔‘‘ (توضیح المرام ص۲۲، خزائن ج۳ ص۶۲)
’’دوسرا درجہ محبت کا وہ ہے جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ جس میں دونوں محبتوں کے ملنے سے آتش محبت الٰہی لوح قلب انسان کو اس قدر گرم کر دیتی ہے کہ اس میں آگ کی صورت پر ایک چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اس چمک میں کسی قسم کا اشتعال یا بھڑک نہیں ہوتی۔فقط ایک چمک ہوتی ہے جس کو روح القدس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔‘‘
(توضیح المرام ص۲۴، خزائن ج۳ ص۶۳)
ہے مرکب وہ جہل میں ایسا
جیسے کیچڑ میں پھنس گیا بھینسا
دل ہے مرزا کا یا وہ پتھر ہے
ہے زباں مونہہ میں یا وہ اخگر ہے
وہ مسافر بشکل انسان تھا
لیک باطن میں پورا شیطان تھا
کیسے عیسیٰ اور اس کے چیلے ہیں
پیٹ بھرنے کے سب جھمیلے ہیں
واہ کیا نام اس نے پایا ہے
جس سے شیطان بھی مسکرایا ہے