اوّل… یہ کہ جب حسب ارشاد آپ کے بار ثبوت حیات خود خاکسار نے اپنے ذمہ لے لیا ہے تو اب یہ بحث بے فائدہ ہے۔
دوم… بار ثبوت وفات کا آپ کے ذمہ نہ ہونا خاکسار کی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ کیونکہ آپ نے توضیح مرام میں دعویٰ کیا ہے کہ مسیح علیہ السلام دنیا میں نہ آویں گے اور جو دلیل اس پر پیش کی ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ مسیح وفات پاچکے اور جو کوئی وفات پاچکتا ہے وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور جو جنت میں جاتا ہے وہ جنت سے نکالا نہیں جاتا۔ پس یہ دلیل متضمن تین مقدموں کو ہے اور دلیل کے ہر مقدمہ کا بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہوتا ہے۔
سوم… آپ نے اپنے خط موسومہ مولوی محمد حسین صاحب نمبر۱۲ میں لکھا ہے۔
جناب آپ خوب جانتے ہیں کہ اصل امر اس بحث میں جناب مسیح ابن مریم کی وفات ہے اور میرے الہام میں بھی یہی اصل قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اﷲ فوت ہوچکا ہے اوراس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو (اے مرزاقادیانی) آیا ہے۔ سو پہلا اور اصل امر الہام میں بھی یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔
پس وفات مسیح ابن مریم آپ کا مستقل دعویٰ ہے۔ اس لئے بار ثبوت وفات آپ کے ذمہ ہے۔ بالجملہ بار ثبوت وفات دو حیثیت سے آپ کے ذمہ ہے۔ ایک اس حیثیت سے کہ یہ اصل دعویٰ آپ کا ہے۔ دوسرے اس حیثیت سے کہ مسیح موعود ہونے کے دعویٰ کی دلیل کا یہ ایک مقدمہ ہے۔
چہارم… اگر بار ثبوت آپ کے ذمہ نہیں ہے تو یہ کام عبث آپ نے کیوں کیا کہ آپ نے ادلہ وفات مسیح توضیح مرام وازالہ اوہام میں بہ بسط تمام بیان کئے۔
قولہ… (قادیانی) مولوی صاحب نے اس کامیابی کی امید پر کہ کسی طرح آیت موصوفہ بالاقطعیۃ الدلالت ہو جاوے۔ یہ ایک جدید قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ آیت کے لفظ ’’لیؤمنن‘‘ میں نون تاکید ہے اور نون تاکید مضارع کو خالص استقبال کے لئے کر دیتا ہے۔
اقول… (محمد بشیر) اس قاعدہ کو جدید کہنا نہایت محل استبعاد ہے۔ اگر مرزاقادیانی میری ہی تحریر کو غور سے پڑھ لیتے تو معلوم ہو جاتا کہ ازہری اور ملاجامی اور عبدالحکیم اور صاحب مغنی اور شیخ زادہ نے اس قاعدہ کی تصریح کی ہے اور سب کتب نحو میں یہ قاعدہ مرقوم ہے۔ کسی نے اس میں خلاف نہیں کیا۔ یہاں تک کہ میزان خواں اطفال بھی جانتے ہیں کہ نون تاکید مضارع کو بہ معنی استقبال کر دیتا ہے۔