حضرت مسیح کے لکھی ہیں۔ یہ آیات قوی الدلالۃ حیات مسیح پر ہیں۔ باقی رہا یہ امر کہ مرزاقادیانی نے تیس آیات واسطے اثبات وفات مسیح علیہ السلام کے لکھی ہیں۔ سو ان کا جواب اجمالی یہ ہے کہ یہ آیات تین قسم کی ہیں۔
اوّل… وہ جن میں لفظ ’’توفی‘‘ بالتخصیص حضرت مسیح کی نسبت واقع ہوا ہے۔
دوم… وہ آیات جو عموماً سب انبیاء گذشتہ کی وفات پر دلالت کرتی ہیں۔
سوم… وہ آیات کہ نہ ان میں حضرت مسیح کی وفات کا خصوصاً ذکر ہے نہ عموماً صرف مرزاقادیانی نے ان سے محض اجتہاداً استنباط وفات کیا ہے۔
قسم اوّل کا جواب یہ ہے کہ بعد فرض وتسلیم اس کے کہ لفظ توفی کے معنی حقیقی موت وقبض روح کے ہیں اور دوسرے معنی مجازی ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ آیت ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ سے جو قطعی الثبوت وقطعی الدلالۃ ہے۔ حیات عیسیٰ علیہ السلام ثابت ہوگئی تو اب یہ آیت صاف ہوگئی۔ آیات مذکورہ کے معنی حقیقی سے اس لئے آیات ’’توفی‘‘ معنی مجازی پر محمول کی جاویں گی اور وہ معنی مجازی جو یہاں مراد ہو سکتے ہیں وہ اخذ تام وقبض ہے۔ جس کو اردو میں پورا لینا کہتے ہیں اور توفی کا استعمال بمعنی اخذ تام وقبض لغت سے ثابت ہے۔
قاموس میں ہے: ’’واوفی علیہ اشرف وفلانا حقہ اعطاہ وافیاً توفاہ واوفاہ فاستوفاہ وتوفاہ‘‘
اور صحاح میں ہے: ’’اوفاہ حقہ ووفاہ بمعنی ای اعطاء حقہ وافیاً واستو فی حقہ وتوفاہ‘‘
مصباح المنیر میں ہے: ’’وتوفیتہ واستوفیتہ بمعنی‘‘
مجمع البحار میں ہے: ’’واستوفیت حقی ای اخذتہ تاما‘‘
صراح میں ہے: ’’ایفاء گزار دن حق کسے بتمام وقال منہ اوفاہ حقہ ووفاہ استیفاء توفی تمام گرفتن حق‘‘
قسطلانی میں ہے: ’’التوفی اخذ الشیٔ وافیاً والموت نوع منہ‘‘
اور دوسرے معنی مجازی ’’انامت‘‘ ہیں۔ جن کو اردو میں سلانا کہتے ہیں اور ’’توفی‘‘ بمعنی انامت، قرآن مجید سے ثابت ہے۔ فرمایا اﷲ تعالیٰ نے سورۂ زمر میں: ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمکس التی قضی علیہا الموت ویرسل الاخری (الزمر:۴۲)‘‘