غیب کا اظہار بھی غیر از رسل ہوتا نہیں
وحی سے ممتاز ہیں مرسل بہ حصر انما
اس لئے تبلیغ میں معصوم بھی رہتے ہیں وہ
کیونکہ ان کی پیروی میں منحصر ہے اہتداء
پھر خطا پر بھی کبھی رہنے دے جاتے نہیں
ان کو ہر دم حضرت سبحان سے آتی ہے ندا
سوء وفحشا سے بچائے جاتے ہیں وہ مخلصین
حضرت یوسف کے حق میں دیکھ لو لا ان راء
یاد کر اپنی وہ تفسیر اخیر مرسلات
بعد از قرآن حدیثوں کی طرف ہر گز نہ جا
سورۂ حج میں نبی آیا ہے یا لفظ رسول
کادیانی خود غرض لفظ محدث مت بڑھا
انبیاء میں اور اپنے میں دکھا کر کے تمیز
محض خدعت ہے پیمبر نیستم کہنا ترا
جس کی عیسیٰ نے خبر دی میں ہوں وہ احمد رسول
ہے ازالے میں تیرے چھ سو تہتر پر لکھا
تیرا ابنیت کا دعویٰ بھی سراسر کفر ہے
کیا نصارا کی ہے ابن اﷲ کہنے میں خطا
ان میں بھی فرزند صلبی تو کوئی کہتا نہیں
حق نے کیوں اس بات پر تکفیر کی ان کی بھلا
ہے نصاریٰ سے تیرا جنگ مخنث کس لئے
استعاروں کا ہے استعمال تو بھی مانتا
معجزات انبیاء کو تو کہے لہو ولعب
بلکہ ان پر شعبدہ بازی کا بہتان بیحیا
کہتا ہے اعجاز عیسیٰ کھیل بازی تھی فقط
سامری کا جس طرح سے سحر وہ گوسالہ تھا
مرسل یزدان مسیح وقت بننے کے لئے
اہل دین میں تو نے اے منحوس ڈالا تفرقا
ہو گیا ثابت براہین سے کہ ہے تو مفت خور
دے کے وعدہ تین سو جز کا ہزاروں کھا گیا
وہ براہین چار جلدوں تک چلی پینتیس جز
اور آخر میں مسلمانوں کو دی تو نے دغا
کہہ دیا بس ہے یہی کافی ہدایت کے لئے
اس سخن سازی پہ سسرا میر ناصر ہے گوا
وہ شب قدر مبارک اور عیسیٰ کا نزول
فتح سے بودی براہین ہو گئی مثل ہبا
مدعی تھا تو براہین میں کہ عیسیٰ آئیں گے
نیچری کے چیلے اب کہتا ہے ان کو مرگیا
ان کو اب سولی پہ لٹکاتا ہے تو اے بے ادب
حق نے جن کے حق میں کی نفی صلیب اشقیا
بہر ذلت دست اعداء میں پھنساتا ہی نہیں
کافروں سے کرتا ہے تطہیر جن کی کبریا
کیا یہی اسرار معارف میں ہے کامل دستگاہ
ساتھ قرآن کے نہ مانے تو حدیث مصطفیٰ
قابل ایمان نہیں ہے بعد قرآن جو حدیث
تونے قول مصطفیٰ کو اس میں داخل کر دیا
ہیں عبث تیری کتابیں اور رسالے اشتہار
کون کافر تیری تصنیفات سے مؤمن ہوا