یہ آیت اگرچہ فی نفسہا قطعیۃ الدلالہ حیات مسیح پر نہیں ہے۔ مگر بانضمام آیت ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ (نسائ:۱۵۹)‘‘ کے قطعی الدلالۃ ہو جاتی ہے اور اس بناء پر ایک حسن اس آیت میں یہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ’’کلام فی المہد‘‘ ایک آیت اور معجزہ ہے۔ ایسا ہی ’’کلام فی الکہولۃ‘‘ معجزہ ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ اس زمان دراز تک جسم کا بغیر طعام وشراب کے زندہ رہنا اور اس میں کچھ تغیر نہ آنا خارق عاد ہے۔ ورنہ ’’کلام فی الکہولۃ‘‘ تو سب ہی کیا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح کا اس میں کیا کمال ہے۔ جس کو اﷲ تعالیٰ نے فہرست نعم جلیلہ میں ذکر فرمایا ہے۔
دلیل سوم
سورۃ نساء میں ہے۔ ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما (نسائ:۱۵۸،۱۵۹)‘‘
یہ آیت بھی ’’فی نفسہا‘‘ اگرچہ قطعی الدلالۃ حیات مسیح پر نہیں ہے۔ مگر ظاہر اس سے ’’رفع الروح مع الجسد‘‘ ہے۔ کیونکہ ’’وما قتلوہ‘‘ اوّل وثانی اور ’’ماصلبوہ‘‘ کے ضمیر منصوب کا مرجع تو قطعاً روح مع الجسد ہے۔ پس یہ امر دال ہے۔ اس پر کہ مرجع رفع کے ضمیر منسوب کا بھی روح مع الجسد ہے۔ علی الخصوص جب آیت ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ‘‘ اس کے ساتھ ضم کی جاوے تو یہ بھی قطعی الدلالت ہو جاتی ہے۔
دلیل چہارم
سورۃ زخرف میں ’’وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبعون ہذا صراط مستقیم (زخرف:۶۱)‘‘
یہ آیت بھی ’’فی نفسہا‘‘ اگرچہ قطعی الدلالۃ حیات مسیح پر نہیں ہے۔ مگر ظاہر یہی ہے۔ کیونکہ ارجاع ضمیر ’’انہ‘‘ کا طرف قرآن مجید کے بالکل خلاف سیاق وسباق ہے۔ پس ضرور مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوئے۔ اب یہاں تین احتمال ہیں۔ یاحدوث مقدر مانا جاوے یا ارادہ معجزات یا نزول۔ اوّل باطل ہے۔ اس لئے کہ ہمارے آنحضرتﷺ کا حدوث علامت قریبہ قیامت کے ہے۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہے۔
’’بعثت انا والساعۃ کہاتین (بخاری ج۲ ص۱۶۳، مسلم ج۲ ص۴۰۶)‘‘
پس حضرت عیسیٰ کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں اور ایسا ہی احتمال دوم بھی باطل ہے۔ کیونکہ