یہ بھی قبول کیاگیا کہ پہلے یہ عاجز ادلہ حیات مسیح تحریر کرے اور اس میں بحث صعود ونزول وغیرہ کا خلط نہ کیا جائے۔ ’’فاقول بحول اﷲ وقوتہ وما توفیقی الابہ علیہ توکلت والیہ انیب‘‘ جاننا چاہئے کہ دلیلیں حیات مسیح کی پانچ آیتیں ہیں۔ دلیل اوّل یہ ہے: ’’وان من اہل الکتاب الاّ لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا (نسائ:۱۵۹)‘‘ وجہ استدلال کی یہ ہے کہ لیؤمنن میں نون تاکید کا آیا ہے اور نون تاکید مضارع کو خالص استقبال کے لئے کر دیتا ہے۔ ماضی اور حال کی تاکید کے لئے نون نہیں آتا ہے۔
ازہری تصریح میں لکھتا ہے: ’’ولایؤکدبہما الماضی لفظا ومعنی مطلقاً لانہما یخلصان مدخولہما للاستقبال وذلک ینافی المعنی‘‘
اور دوسری جگہ لکھتا ہے: ولایجوز تاکیدہ بہما اذاکان منفیاً اوکان المضارع حالاً کقرأۃ ابن کثیر۔ لاقسم بیوم القیامۃ۔ وقول الشاعر ؎
یمینا لا بغض کل امرے
یزخرف قولاً ولایفعل
فاقسم فی الآیۃ والبغض فی البیت، معناہما الحال الدخول اللام علیہما وانما یوکدا بالنون لکونہا تخلص الفعل للاستقبال وذلک ینافی الحال‘‘
فوائد ضیائیہ میں ہے: ’’تختص ای نون بالفعل المستقبل فی الامر والنہی والاستفہام والتمنی والعرض والقسم وانما اختصت ہذہ النون بہذہ المذکورات الدالۃ علی الطلب دون الماضی والحال لانہ لایوکد الا مایکون مطلوبا‘‘
عبدالحکیم، تکملہ میں لکھتے ہیں: ’’لان النون تخلص المضارع للاستقبال فکرھوا الجمع بین حرفین لمعنی واحد فی کلمۃ واحدۃ‘‘
مغنی میں ہے: ’’ولایؤکد بہما الماضی مطلقاً واما المضارع فان کان حالاً لم یؤکدبہما وان کان مستقبلا اکدبہما وجوباً فی نحوواﷲ لا کیدن اصنامکم‘‘
شیخ زادہ، حاشیہ بیضاوی میں لکھتے ہیں: ’’واعلم الاصل فی نون التاکید ان تلحق بآخر فعل مستقبل فیہ معنی الطلب کالامر والنہی والاستفہام والتمنی والعرض نحو اضربن زیداً ولاتضربن وہل تضربنہ ولیتک تضربن مثقلۃ ومخففۃ واختص بما فیہ معنی المطلب لان وضعہ للتاکید