والتاکید انما یلیق بما یطلب حتی یولد ویحصل فیغتنم ہو بوجد ان المطلوب ولا یلیق بالخبر المحض لانہ قد وجد وحصل فلا یناسبہ التاکید واختص بالمستقبل لان الطلب انما یتعلق بما لم یحصل بعد لیحصل وھو المستقبل بخلاف الحال والماضی لحصولہما والمستقبل الذی ہو خبر محض لا تلحق نون التاکید بآخرہ الا بعد ان یدخل علی اوّل الفعل مایدل علی التاکید کلام القسم وان لم یکن فیہ معنی الطلب لان الغالب ان المتکلم یقسم علی مطلوبہ‘‘
اور ایسا ہی بلاخلاف تمام کتب نحو میں مرقوم ہے۔
قرآن مجید اور سنت مطہرہ میں بھی نون بہت مواضع میں خاص مستقبل کے لئے آیا ہے اور ماضی اور حال کے لئے ایک جگہ بھی پایا نہیں جاتا۔ اس مقام پر چند آیات نقل کی جاتی ہیں۔ سورہ بقرہ میں ہے۔
’’فاما یأتینکم منی ہدیً فمن تبع ہدای فلاخوف علیہم ولاہم یحزنون (بقرہ:۳۸)‘‘
اور ’’فلنولینک قبلۃ ترضاھا (بقرہ:۱۴۴)‘‘
اور ’’ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات (بقرہ:۱۵۵)‘‘
سورہ آل عمران میں ہے: ’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ (آل عمران:۸۱)‘‘
اور ’’لتبلون فی اموالکم وانفسکم ولتسمعن من الذین اوتو الکتاب من قبلکم ومن الذین اشرکوا اذی کثیراً (آل عمران:۱۸۶)‘‘
اور ’’واذ اخذ اﷲ میثاق الذین اوتو الکتاب لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ (آل عمران:۱۸۷)‘‘
اور ’’فالذین ہاجروا واخرجوا من دیارہم واوذوا فی سبیلی وقاتلوا وقتلوا لاکفرن عنہم سیآتہم ولادخلنہم جنت تجری من تحتہا الانہار (آل عمران:۱۹۵)‘‘