جواب رقعۂ دوم
مکرمی اخویم مولوی صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ
کل دس بجے کے بعد بحث ہویا اگر ایک ضروری کام سے فرصت ہوئی تو پہلے ہی اطلاع دے دوں گا۔ ورنہ انشاء اﷲ القدیر دس بجے کے بعد تو ضرور بحث شروع ہوگی۔ صرف اس بات کا التزام ضروری ہوگا کہ بحث اس عاجز کے مکان پر ہو۔ اس کی ضرورت خاص وجہ سے ہے۔ جو زبانی بیان کر سکتا ہوں۔ جلسۂ عام نہیں ہوگا۔ صرف دس آدمی تک جو معزز خاص ہوں۔ آپ ساتھ لاسکتے ہیں۔ مگر شیخ بٹالوی اور مولوی عبدالمجید ساتھ نہ ہوں اور نہ آپ کو ان بزرگوں کی کچھ ضرورت ہے۔ والسلام!
مرزاغلام احمد عفی عنہ
۲۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء
جواب رقعہ سوم جو گم ہوگیا
جناب مولوی صاحب مکرم بندہ! السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ!
میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان تمام شرطوں کو جو مین اپنے کل کے پرچے میں لکھ چکا ہوں قبول کرنے سے کسی قسم کا انحراف یا میلان انحراف ظاہر نہ کریں گے۔ میں نے جن لوگوں کو آنے سے روکا ہے تحریراً اور مصلحتاً روکا ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ خیروبرکت اسی میں ہے۔ بہت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعد از فراغ نماز جمعہ بحث شروع ہو اور شام تک یا جس وقت تک ممکن ہوسکے سلسلۂ بحث جاری ہو اور دس آدمیوں سے زیادہ ہرگز ہرگز کسی حال میں آپ کے ساتھ نہ ہوں اور اس لحاظ سے کہ بحث کو بیفائدہ طول نہ ہو۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرچون کی تعداد پانچ سے زیادہ نہ ہو اور پہلا پرچہ آپ کا ہو۔
محمد بشیر سہسوانی کا پہلا پرچہ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
الحمد ﷲ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفی۔ اما بعد!
ارباب علم ودین پر مخفی نہ رہے کہ اصل دعویٰ مرزاقادیانی کا، مسیح موعود ہونے کا ہے۔ لیکن جناب ممدوح کے محض اصرار بلیغ سے مباحثہ حیات ووفات مسیح میں منظور کیاگیا ہے اور اس مسئلہ میں بھی اصل منصب مرزاقادیانی کا مدعی کا ہے۔ لیکن صرف جناب ممدوح کے اصرار سے ہی