خلاصہ میں ہے: ’’قال ابوزرعۃ کل شیٔ قال الحسن قال رسول اﷲﷺ وجدت لہ اصلا خلا اربعۃ احادیث انتہی‘‘
جامع ترمذی کی کتاب العلل میں ہے: ’’حدثنا سوار بن عبداﷲ العنبری قال سمعت یحیی بن سعید القطان یقول ما قال الحسن فی حدیثہ قال رسول اﷲﷺ الا وجدنا لہ اصلا الا حدیثا اوحدیثین انتہی‘‘ سیوم یہ مرسل معتضد ہے۔ ساتھ تین آثار ابن عباس کے ایک بیان میں کیفیت رفع عیسیٰ علیہ السلام کی دوسرا تفسیر آیت کریمہ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ میں تیسرا تفسیر آیہ کریمہ ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ میں ’’کما تقدم‘‘ اور ان آثار میں سے دو کے رجال رجال صحیح ہیں اور ایک حکماً مرفوع ہے اور ایک کو بعض مخرجین نے مرفوع کیا ہے اور معتضد ہے۔ ساتھ اثر ابوہریرہؓ کے جس سند کے ساتھ صحیح بخاری میں مذکور ہے اور معتضد ہے۔ ساتھ حدیث مرفوع ابن عباس کے جو مسنداً صحیح بخاری میں مروی ہے اور معتضد ہے۔ ساتھ آیات کریمہ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ:۱۵۹)‘‘ اور دیگر آیات شریفہ کے جو اثبات حیات کے لئے بیان کی گئیں ہیں اور مرسل اس سے کم میں قابل احتجاج ہوجاتا ہے۔
الفیہ میں ہے۔ ’’لکن اذاصح لنا مخرجہ بمسند اومرسل یخرجہ من لیس یروی عن رجال الاوّل نقبلہ‘‘
سخاوی فتح المغیث میں لکھتے ہیں: ’’وکذا یعتضد بماذکر مع مذہب الشافعی کما سیأتی من موافقۃ قول بعض الصحابی اوفتوی عوام اہل العلم انتہی‘‘ پس اس مرسل کے قوی وقابل احتجاج ہونے میں کیا شک باقی رہا۔ تلک عشرۃ کاملۃ یہ پوری دس دلیلیں ہوئیں حیات مسیح علیہ السلام پر۔
مخفی نہ رہے کہ جو عبارات مفسرین کی تحریر چہارم میں نقل کی گئیں ہیں۔ ان سے صاف واضح ہے کہ سب اہل اسلام آنحضرتﷺ کے وقت سے لے کر اس زمانہ تک صحابہ وتابعین وتبع تابعین وفقہاء واہل حدیث وعامہ مفسرین سب کا اعتقاد یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ مع الجسد موجود ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا ہے کہ وہ مردہ ہیں۔ اگرچہ اہل اسلام کا اس میں