علم ظاہر کی بھی قلعی عام جلسہ میں کھلی
زور باطن بھی ہوا آخر نکما آپ کا
کیوں نہ کی لاہور میں پھر بحث عبداﷲ سے
کیا اڑایا دوست نادانوں نے خاکا آپ کا
شرط نور الدین جموں میں نشان کے واسطے
کر گئے منہ خوب ہی عالم میں کالا آپ کا
صادق آیا طالب ومطلوب دونوں میں ضعیف
اب بھی گر طالب ہو کوئی دل کا اندھا آپ کا
قادیاں کو چلتے چلتے جانب دلی چلے
خوب ہے معلوم وہ جانا تھا کیسا آپ کا
میں نے روکا انتظام قادیان چل کر کرو
بس نہ تھا کچھ ساتھ کہ فتنہ پہ اصلاً آپ کا
طشت ازبام آپ ہونے کے لئے دلی گئے
قدرت حق سے ہوا طے جلد جھگڑا آپ کا
سعی ہو مشکور ان کی اہل دین خوش کر دئیے
کیا دکھایا اہل دلی نے تماشا آپ کا
آپ نے جو راہ پکڑی وہ بھی دوڑی ساتھ ساتھ
عذریا حیلہ کوئی باقی نہ چھوڑا آپ کا
تھے کہاں پر زور جملے آپ کے اور کیا ہوا
وہ نشان آسمانی سے مسیحا آپ کا
کس لئے بھاگے وہاں سے شب کو چوروں کی طرح
پہرہ چوکی جب کہ تھا ہر وقت برپا آپ کا
یاد ہوگا آپ نے لکھا تھا جو خط میں مجھے
مر گیا جس وقت عموئیل بیٹا آپ کا
ان کا اطمینان کردید بدظن ہوئے جاتے ہیں لوگ
میں نے حسن ظن سے پھر سکہ بٹھایا آپ کا
پوچھیں کیا اوروں سے کہئے آپ انصاف سے
پہلے کیا اقوال تھے اب حال ہے کیا آپ کا
میں نے جب درخواست کی آخر بطرز صوفیا
رنگ چہرہ ہوگیا دہشت سے پیلا آپ کا
شور تھا ہم زور باطن سے کریں گے فیصلہ
نکلا مذہب وقت پر اس میں بھی ڈھیلا آپ کا
آپ کی ہستی ہے کیا ہے قادیان آئے کوئی
کھل گیا ہے سب پہ راز دین ودنیا آپ کا
حسن وخوبی کہئے کیا ہے ظاہری یا باطنی
سال بھر تک کوئی رہن تمنا آپ کا
راہ دین میں مقتداء میں نے بنایا تھا تمہیں
یاد رکھئے اب بھی چھوڑوں گا نہ پیچھا آپ کا
مرزائی نیچری ہیں نیچری
کوچہ وبرزن میں پیٹوں گا ڈہنڈورا آپ کا
سارے عالم میں کروں گا خوب ہی مٹی خراب
ہے ابھی کیا نام روشن اور ہو ہوگا آپ کا
حق تعالیٰ آپ کو پھر لائے راہ راست پر
پھر بنائے مجھ کو دولت خواہ سچا آپ کا
ہو اسی پر ہو چکا لیکن اگر جف القلم
دور ہو ایمان والوں سے یہ لغو آپ کا
حضرت صوفی خدا کا شکر کیجئے بچ گئے
ہر دو عالم میں رہے اﷲ مولیٰ آپ کا