رسول اﷲﷺ فقال یا ایہا الناس انکم محشورون الیٰ اﷲ حفاۃ عراۃ غرلاثم قال کما بدأنا اوّل خلق نعیدہ وعدا علینا اناکنا فاعلین الخ! ثم قال الاوان اوّل الخلائق یکسیٰ یوم القیامۃ ابراہیم الاوانہ یجاء برجال من امتی فیوخذ بہم ذات الشمال فاقول یا رب اصیحابی فیقال انک لاتدری مااحد ثوابعدک فاقول کما قال العبد الصالح وکنت علیہم شہیدا مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم فیقال ان ہؤلاء لم یزالوا مرتدین علی اعقابہم منذ فارقتہم‘‘ روایت ہے۔ ابن عباسؓ سے کہا کہ خطبہ پڑھا رسول اﷲﷺ نے پس فرمایا اے لوگو! بے شک تم جمع کئے جاؤ گے اﷲ کی طرف ننگے پاؤں ننگے بدن بغیر ختنہ کئے۔ پھرپڑھی یہ آیت ’’کما بدأنا اوّل خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فاعلین الیٰ آخرالآیہ‘‘ پھر فرمایا کہ آگاہ ہو جاؤ کہ سب مخلوق سے پہلے قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جاویں گے۔ آگاہ ہو جاؤ اور بیشک لائے جاویں گے۔ چند مرد میری امت میں سے پھر لے جاویں گے۔ ان کو بائیں طرف پھر کہوں گا میں۔ اے رب میرے یہ میرے چھوٹے ساتھی ہیں۔ پس کہا جاوے گا بیشک تو نہیں جانتا ہے کہ کیا نئی چیزیں نکالیں۔ انہوں نے بعد تیرے پس کہوں گا میں مانند اس کی کہ کہا بندہ صالح یعنی ’’عیسیٰ نے وکنت علیہم شہیداً مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (مائدۃ:۱۱۷)‘‘ پس کہا جاوے گا کہ بیشک یہ لوگ پھر گئے اپنی ایڑیوں پر جب سے کہ چھوڑا تو نے ان کو انتہت وجہ استدلال یہ ہے کہ اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے اپنے قول کو تشبیہ دی۔ ساتھ قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اور یہ نہیں فرمایا کہ ’’فاقول ماقال العبد الصالح‘‘ یعنی پس کہوں گا میں جو کہا بندۂ صالح نے اور مشبہ اور مشبہ بہ میں مغائرت ہوتی ہے۔ نہ عینیت۔ پس معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کے توفی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے توفی میں مغائرت ہے۔ نہ عینیت اور آنحضرتﷺ کے توفی تو قطعاً بذریعہ موت کے ہوئی۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی بذریعہ موت کے نہیں ہوئی۔ بلکہ بذریعہ رفع واصعاد کے ہوئی جو مشابہ وہمشکل موت کا ہے اور یہی مدعا تھا۔
نویں دلیل اثر ابن عباس ہے جو حکماً مرفوع ہے۔ فتح البیان میں ہے۔ ’’اخرج سعید بن مصور والنسائی وابن ابی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباسؓ قال