احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ جن کا تواتر مرزاقادیانی نے (ازالۃ الاوہام کے ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰) میں تسلیم کیا ہے۔ ان میں سے ہے حدیث متفق علیہ ابوہریرہؓ کی: ’’قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتی لایقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من الدنیا ومافیہا ثم یقول ابوہریرۃؓ فاقروأ ان شئتم وان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ کہا ابوہریرہؓ نے کہ فرمایا رسول مقبولﷺ نے قسم ہے اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ البتہ بیشک قریب ہے یہ کہ اترے گا تم میں بیٹا مریم کا حاکم منصف ہوکر پھر توڑے گا۔ صلیب کو اور قتل کرے گا سور کو اور موقوف کرے گا۔ جزیہ اور بھی گامال یہاں تک کہ نہ قبول کرے گا۔ اس کو کوئی یہاں تک کہ ہوگا،۔ ایک سجدہ بہتر دنیا ومافیہا سے پھر کہتے تھے۔ ابوہریرہؓ پس پڑھو تم اگر چاہو تم یہ آیت ’’وان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ:۱۵۹)‘‘ یعنی اور نہیں ہوگا اہل کتاب میں سے کوئی مگر البتہ تحقیق وہ ایمان لاوے گا۔ عیسیٰ پر قبل مرنے ان کے سے انتہت تقریر استدلال کی یہ ہے کہ معنی حقیقی ابن مریم کے خود عیسیٰ بن مریم ہیں۔ قرآن مجید واحادیث صحیحہ میں بکثرت یہ لفظ وارد ہوا ہے اور سب جگہ حضرت عیسیٰ عم مراد ہیں۔ مثیل ایک جگہ بھی مراد نہیں ہے۔ والنصوص تحمل علی ظواہرہا وصرف النصوص عن ظواہرہا۔ بغیر صارف قطعی الحاد اور یہاں کوئی صارف قطعی موجود نہیں ہے۔ ’’ومن یدعی فعلیہ البیان‘‘ پس ان احادیث سے نزول خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قطعاً ثابت ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی نے اس دلیل کا اپنی کسی تحریر میں جواب نہیں دیا۔ اگر کہا جاوے کہ اخیر کی تین دلیلوں سے نزول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ثابت ہوتا ہے اور مقصود ثبوت حیات تھا۔ پس تقریب تمام نہ ہوئی تو جواب یہ ہے کہ مقصود بالذات اثبات نزول ہے اور حیات مقصود۔ بالعرض ہے۔ پس اگر نزول موقوف حیات پر ہے اور مستلزم ہے۔ حیات کو تو ملزوم کے ثابت ہونے سے لازم خود ثابت ہوگیا۔ پس حیات ثابت ہوئی۔ ’’وھو المطلوب فی ہذا المقام‘‘ اور اگر نزول حیات کو مستلزم نہیں ہے تو اگرچہ حیات ثابت نہ ہوئی۔ لیکن جو مقصود بالذات تھا۔ یعنی نزول خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہی ثابت ہوگیا۔ جس کے لئے حیات عیسیٰ علیہ السلام ثابت کی جاتی تھی۔ پس اثبات حیات کی کچھ حاجت نہ رہی۔
آٹھویں دلیل صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے۔ ’’عن ابن عباسؓ قال خطب