کا دم بھرتے تھے۔ وہی ان سے منکر ہو جاویں تو یہ قیامت ہی کا روز ہوگا۔ جس دن اوّلین وآخرین سب جمع ہوںگے۔ چنانچہ مؤید اس کی وہ حدیث ہے۔ جس کو ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ اور ابن عساکر نے رسول اﷲﷺ سے روایت کی ہے۔ ’’عن ابی موسیٰ قال قال رسول اﷲﷺ اذا کان یوم القیامۃ یدعیٰ بالانبیاء وامہاتم ثم یدعیٰ بعیسیٰ فیذکرہ نعمتہ علیہ فیقربہا فیقول یا عیسیٰ بن مریم اذکر نعمتی علیک الایۃ ثم یقول اأنت قلت للناس اتخذونی وامی الہین من دون اﷲ فینکر ان یکون قال ذالک فیوتی بالنصاری فیسئلون فیقولون نعم ہو امرنا بذلک فیطول شعر عیسیٰ حتیٰ یاخذ کل ملک من الملائکۃ بشرعۃ من شعرراسہ وجسدہ فیحاتیہم من یدی اﷲ مقدار الف عام حتیٰ یوقع علیہم الحجۃ‘‘ اور قتادہ وغیرہ سے بھی اس آیت میں قیامت کے دن کا قصہ ہونا منقول ہے۔ پس اس آیت سے ممات مسیح پر استدلال کرنا بالکل باطل ہوگیا۔ واﷲ اعلم وعلمہ اتم!
قولہ… اگر کوئی کہے کہ پھر اس آیت کے کیا معنی ہوںگے کہ ’’ان من اہل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ تو جواب اس کا یہ ہے کہ ضمیر قبل موتہ میں راجع طرف کتابی کے ہے۔ اس واسطے کہ دوسری قرأت میں یوں آیا ہے جو بیضاوی وغیرہ میں لکھی ’’الا لیؤمنن بہ قبل موتہم بضم النون‘‘ پس تفسیر آیت ایسی چاہئے جو موافق ہو قرأت دوسری کے نہ ایسی تفسیر جو مخالف۔ الخ!اقول… مستعینا باﷲ جل وعلا آپ کے پیر جی (توضیح مرام ص۸، خزائن ج۳ ص۵۴) میں لکھتے ہیں۔ اگرچہ حضرت مسیح کے بہشت میں داخل ہونے کا بتصریح کہیں ذکر نہیں۔ لیکن ان کے وفات پا جانے کا تین جگہ ذکر ہے۔ اس کے حاشیہ میں تین آیتوں میں سے ایک یہ آیت بھی لکھی ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب‘‘ اور (ازالہ اوہام ص۳۸۵، خزائن ج۳ ص۲۹۹) میں اسی آیت کے ذکر میں لکھتے ہیں: ’’غرض قرآن شریف میں تین جگہ مسیح کا فوت ہو جانا بیان کیاگیا ہے۔‘‘
اور اسی (ازالہ اوہام ص۶۰۳، خزائن ج۳ ص۴۲۵) میں لکھتے ہیں۔ چوتھی آیت جو مسیح کی موت پر دلالت کرتی ہے۔ وہ یہ آیت ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ تو دیکھو آپ کے پیر جی نے ارجاع ضمیر موتہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے طرف ثابت رکھ کر لفظ میں نسبت موت کی ان کے طرف دیکھ کر اس سے موت مسیح ثابت کر لی۔ جب انہوں نے ممات مسیح کی اس آیت سے ثابت کی اور اس آیت کو ممات مسیح پر دال بتایا تو اس وقت ’’قرأت