داخل نہ ہوگا اور اگر رفعتنی کے ہیں تو وہ خلاف محاورہ ولغت ہے اور پھر نزول بعد جب وفات ہوئی۔ وہ زمانہ داخل نہ ہوا۔ پس جواب ناقص رہا۔ جواب میں یہ عاجز عرض کرتا ہے کہ مقدمۂ اولیٰ کہ توفی کے معنی اس جگہ موت کے ہیں۔ مسلم نہیں بلکہ معنی توفیتنی کے استوفیتنی کے ہیں۔ جس کو ہم پہلے لغت سے ثابت کر چکے ہیں اور قرائن مسطورہ بالا یہاں پر بھی قائم ہیں۔ تقریب جب ہی تمام ہوگی کہ جو معنی خلاف مقصود ہیں۔ ان کا تعذر ثابت کرو اور یہاں اس کے خلاف پر قرائن موجود ہیں۔ پس دلیل تام نہ ہوئی اور اس سے ممات مسیح ثابت نہ ہوئی۔ بلکہ اس سے ان کی حیات نکلتی ہے۔ چاہے یہ قصہ رفع کے بعد کا کہا جاوے یا روز قیامت کا اور مقدمہ ثانی بھی مسلم نہیں اور یہ جو کہا کہ صیغہ ماضی اور اذ ہے تو صیغہ ماضی اور اذ سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قصہ قیامت کا نہیں۔ کیونکہ کلام مجید میں بہت جگہ حالات قیامت کا ذکر اذ اور صیغہ ماضی کے ساتھ آیا ہے۔ چند آیات تمثیلاً لکھتا ہوں۔ فرمایا اﷲ جل شانہ نے ’’اذتبر والذین اتبعوا من الذین اتبعو ورأوا العذاب وتقطعت بہم الاسباب وقال الذین‘‘ اس آیت میں چار جگہ صیغہ ماضی اور اذ واقع ہے اور فرمایا۔ ’’ونادیٰ اصحاب الجنۃ اصحاب النار‘‘ اور فرمایا۔ ’’وناد واصحاب الجنۃ ان سلام علیکم‘‘ اور فرمایا ’’ونادی اصحاب الاعراف رجالاً‘‘ اس رکوع میں چار جگہ صیغہ ماضی بمعنی مستقبل وارد ہے اور فرمایا ’’وبرزواﷲ جمیعاً فقال الضعفائ‘‘ اس آیت میں تین جگہ وارد ہے اور فرمایا۔ ’’ولوتریٰ اذ وقفوا علیٰ ربہم قال الیس ہذا باالحق قالوا بلیٰ وربنا قال فذوقوا‘‘ اس آیت میں چار جگہ وارد ہے اور فرمایا ’’وناد وایا مالک ولیقض علینا ربک قال انکم ماکثون‘‘ اور فرمایا۔ ’’ولوتری اذ وقفوا علی النار فقالوا‘‘ اور فرمایا۔ ’’ونفخ فی الصور فصعق من فے السموٰت‘‘ اس رکوع میں آٹھ جگہ صیغہ ماضی بمعنی مضارع ہے۔ اور فرمایا ’’وسیق الذین کفروا الیٰ جہنم زمراً‘‘ اس رکوع میں بھی متتعدد جگہ واقع ہے۔ حاصل یہ کہ کلام مجید میں یہ بات بہت شائع ہے کہ حالات قیامت اور کیفیات آخرت کو کہ جو زمانہ مستقبل کے ساتھ متعلق ہیں۔ ان کو ماضی کے صیغوں اور ماضی کے لفظوں کے ساتھ بسبب تحقق وقوع یا حکایت حال کے ذکر کیا ہے اور بہت جگہ یہ بات سیاق وسباق سے پہنچانی جاتی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں بھی ’’یوم یجمع اﷲ الرسل فیقول ماذا اجبتم‘‘ سے پڑھ کر دیکھو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ قیامت کا قصہ ہے۔ پس یہ دلیل صاحب رسالہ کی ان کو مفید نہ ہوئی اور ان کی تقریب ناتمام رہ گئی اور ناتمامی دلیل ثانی کا بیان سنو تو ہم کہتے ہیں کہ توفیتنی کے معنی استوفیتنی کے ہیں۔ (یعنی شق ثانی کو اختیار کیا) اور توفی کے معنی استیفاء کے