کیونکر ثابت ہوسکتی ہے۔ قتادہ وغیرہ نے اس آیت کریمہ کے معنی میں کہا ہے۔ ’’انی رافعک الیّٰ ومتوفیک یعنی بعد ذالک‘‘ چنانچہ حافظ ابن کثیر اور علامہ سیوطیؒ نے اس کو نقل کیا ہے۔ یہ تقدیم وتاخیر باعث نقصان فصاحت وبلاغت نہیں۔ چنانچہ بہت جگہ کلام بلاغت نظام میں موجود ہ کہ نظم میں مقدم ہے اور معنی میں مؤخر وبالعکس چند مثالیں آیات کریمہ سے ہدیۂ ناظرین کرتا ہوں۔ فرمایا اﷲ جل وعلانے ’’ولو لا کلمۃ سبقت من ربک لکان لزاماً واجل مسمے ‘‘ قتادہؓ نے کہا۔ ’’ہذا من تقادیم الکلام تقول لو لا کلمۃ واجل مسمی لکان لزاما‘‘ اور فرمایا ’’انزل علی عبدہ الکتاب ولم یجعل عوجاً قیما‘‘ قتادہ نے کہا۔ ’’ہذا من التقدیم والتاخیر انزل علی عبدہ الکتاب قیما ولم یجعل لہ عوجا‘‘ اور فرمایا۔ ’’واذ قتلتم نفساً فاداراتم فیہا‘‘ بغوی نے کہا۔ ’’ہذا اوّل القصۃ وان کان مؤخرا فی التلاوۃ‘‘ اور فرمایا۔ ’’فلا تعجبک اموالہم ولا اولادہم انما یرید اﷲ لیعذبہم فی الحیوٰۃ الدنیا‘‘ قتادہؓ نے کہا۔ ’’ہذا من تقادیم الکلام نقول لا تعجبک اموالہم ولا اولادہم فی الحیوٰۃ الدنیا انما یرید اﷲ ان یعذبہم فی الاخرۃ‘‘ وقس علی ہذہ! میری یہ غرض نہیں کہ یہ تقدیم وتاخیر خالی نفع سے ہے۔ بلکہ سب میں خوبیاں رکھی گئی ہیں۔ بعض بعض کا بیان تفاسیر میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ کے محض فضل وکرم سے ایک وجہ وجیہ میرے ذہن میں اس آیت کریمہ ’’انی متوفیک ورافعک‘‘ میں تقدیم وتاخیر کی آئی ہے۔ کسی مصلحت سے اس وقت نہیں لکھی۔ کسی دوسری تحریر میں انشاء اﷲ لکھی جاوے گی۔ واﷲ اعلم وعلمہ احکم!
قولہ… پھر اب اور دوسری آیت کو دیکھو۔ ’’اذا قال اﷲ یا عیسیٰ اانت قلت للناس‘‘ ظاہر ہے کہ قال صیغہ ماضی ہے اور اس کے اوّل اذموجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے۔ پس ثابت ہواکہ یہ معاملہ وقت نزول آیت سے زمانہ ماضی کا ہے۔
اقول… بتوفیق اﷲتعالیٰ وتائیدہ اولاً تقریر استدلال صاحب رسالہ کی بیان کرتا ہوں۔ آیت ’’فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم‘‘ سے ممات مسیح نکالتے ہیں۔ بنا استدلال کی دو مقدموں پر ہے۔ اوّل یہ کہ توفی بمعنی موت کے ہے۔ دوسرے یہ کہ سوال وجواب نزول آیت سے زمانہ ماضی میں ہوا ہے۔ یہ قیامت کا قصہ نہیں۔ اس ثانی مقدمہ پر دلیلیں بیان کیں۔ پہلے یہ کہ صیغہ ماضی ہے اور اذ کے ساتھ ہے جو مخصوص ماضی کے ساتھ ہے۔ دوسری دلیل یہ کہ اگر یہ قصہ قیامت مانا جائے تو اگر توفیتنی کے معنی امتنی کے ہیں تو جو زمانہ درمیان صعود ونزول کے ہے وہ داخل