اﷲ‘‘ جس کا ظرف ہے۔ یعنی مکر اﷲ وہ اسی معنی کا مقتضی ہے نہ موت کا۔ کیونکہ حامی اپنے دوست کو اس وقت میں کہ دشمن اس پر حملہ کیا چاہتے ہوں اور اس کے قتل کے درپے ہوں۔ ان کے مقابلہ میں اپنے طرف سے موت کی خبر سنادی تو یہ بات ہرگز باعث تسکین نہ ہوگی اور حمایت نہ ٹھہرے گی۔ ظاہر ہے موت سے طبیعت انسانی کسی کی ہو نبی کی یا ولی کی متنفر ہوتی ہے۔ احادیث میں انبیاء کے قصص کو پڑھ دیکھو۔ زیادہ نہیں تو موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کو دیکھ لو۔ اگر کہا جاوے کہ پھر رافعک بیکار ہو جاوے گا تو میں کہتا ہوں۔ رافعک رافع ہے ابہام متوفیک کو، کیونکہ استیفاء عام ہے۔ استیفاء برفع الیٰ السماء وبغیر رفع کو تو رافعک نے اس احتمال غیر مقصود کو دور کر دیا۔ ایسے ہی صرف رافعک بھی محتمل غیرمقصود معنی کا تھا۔ لہٰذا دونوں ہی لفظ کافرمانا ضرور تھا۔ پس کوئی کلمہ کلام بلاغت نظام کا بیکار اور خالی فائدہ سے نہیں۔ پس یہ آیت کریمہ کھلی دلیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صعود اور رفع جسمانی کی ہے۔ اب میں اسی معنی کے چند اقوال مفسرین نقل کرنا چاہتا ہوں۔ تاکہ معلوم ہو جاوے کہ بھلے لوگوں نے بھی ایسے معنی کئے ہیں۔ تفسیر جامع البیان میں ہے۔ ’’اومتوفیک من الدنیا ولیس بوفاۃ موت ای قابضک من الارض لم ینالوا منک شیئا من توفیت مالی‘‘ اور جمل حاشیہ جلالین میں ہے۔ ’’فیہ وجہان اظہرہما ان الکلام علیٰ ظاہرہ من غیر ادعا تقدیم وتاخیر فیہ بمعنی انی مستوفی اجلک ومؤخرک وعاصمک من ان یقتلک الکفار الیٰ ان تموت حتف انفک من غیر ان تقتل بایدی الکفار ورافعک الیٰ سمائی‘‘ اور تفسیر انوار التنزیل میں ہے۔ ’’ای مستوفی اجلک ومؤخرک الیٰ اجلک المسی عاصما ایاک من قتلہم او قابضک من الارض من توفیت مالی‘‘ ایسے ہی تفسیر کشاف میں ہے اور اگر متوفیک کے معنی ممیتک مان بھی لیں تو اس سے تقدیم موت کی رفع پر ثابت نہیں ہوتی کیونکہ واو سے تربیت مستفاد نہیں ہوتی۔ ابوالبقاء نے کہا۔ ’’الواوفی قولہ ورافعک لا تفید الترتیب لانہا المطلق الجمع فلافرق بین التقدیم والتاخیر‘‘ پس تب بھی ممات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس سے ثابت نہ ہوگی۔ لہٰذا یہ کہنا صاحب رسالہ کا کہ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اوّل ہوئی اور رفع بعد کو دعویٰ بلادلیل اور ادعاء خلاف منشاء قرآنی ہے۔ کیونکہ اگر وہاں یہ ترتیب مراد ہوتی تو کسی لفظ ترتیبی کے ساتھ فرمایا جاتا۔ ’’واین ہذا من ذاک‘‘ اور ترتیب کلمات قرآنی مستلزم ترتیب زمانی کو نہیں کہ جو نظم مقدم ہے۔ وہ وقوع میں بھی مقدم ہو۔ ’’ومن ادعی فعلیہ البیان‘‘ پس اگر مان بھی لیں کہ توفی کے معنی یہاں پر موت کے ہیں۔ تب بھی ممات مسیح اس سے