اور ان کے نزول کے بارہ میں اﷲ جل شانہ فرماتا ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ اور احادیث درباب نزول کے تواس قدر وارد ہیں کہ ان کا احصار متعذر ہے۔ ان میں سے چند احادیث صحیحہ صریحہ ہم اوپر بیان بھی کر چکے۔ پس واضح ہوگیا کہ بہت سی احادیث اور آیات سے صعود اولیٰ آسمان پر اور نزول آخری آسمان سے بوجود عنصری ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا صاحب رسالہ کا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صعود اولیٰ آسمان پر محض افتراء ہے۔ اﷲ پر اور اس کے رسول پر ’’ان الذین یؤذون اﷲ ورسولہ لعنہم اﷲ فی الدنیا والآخرۃ واعدلہم عذاباً الیما‘‘ نعوذ باﷲ من ذلک!
رہی یہ بات کہ صاحب رسالہ اس آیت کریمہ ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فوت ہو جانے پر استدلال کرتے ہیں تو اس کا جواب سنو تو واضح رہے کہ ظاہر کتب لغت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لفظ توفی دو معنی میں مشترک ہے اور کلام عرب میں استعمال اس لفظ کا دو معنی میں جاری ہے۔ ایک بمعنی استیفاء یعنی پورا لینا دوسرے موت مصباح المنیر میں ہے۔ ’’وتوفیۃ واستوفیۃ بمعنی وتوفاہ اﷲ اماتہ‘‘ صحاح جوہری میں بھی اسی طرح ہے اور قاموس میں بھی ایسے ہی موجود ہے اور جامع البیان میں ہے۔ ’’التوفی اخذ الشیٔ وافیا‘‘ اور تفسیر فتح البیان میں ہے۔ ’’التوفی یستعمل فی اخذالشیٔ وافیاً ای کاملا‘‘ تو معلوم ہوا کہ توفی کے دو معنی آتے ہیں۔ ایک استیفائ، دوسرے موت، استیفاء کے معنی بھی سمجھ لو۔ مجمع البحار میں ہے۔ ’’واستوفیت حقی ای اخذتہ تاما‘‘ اور غیاث اللغات میں ہے۔ استیفاء تمام رافروگر فتن وتمام گرفتن حق از منتخب وکنز وصراح انتہی تو توفی یہاں پر معنی اوّل میں مستعمل ہے۔ معنی یہ ہوئے۔ اے عیسیٰ میں تجھے پورا لینے والا ہوں اور اٹھانے والا ہوں۔ یعنی میں تجھ کو مع جسم وجان سب لے کر اٹھالوں گا۔ اب یہاں پر نہ تقدیم لفظ کی ضرورت ہے نہ تاخیر کی آیت بے تکلف اپنی معنی دیتی ہے۔ ممات مسیح کو اس سے کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ ان کی حیات پر دال اور ان کے صعود وجسمی کی دلیل ہے اور اس معنی کی ترجیح کے واسطے بہت قرائن ہیں کہ معنی موت کے نہیں بنتے۔
اوّل یہ کہ آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ یہی بتاتی ہے۔ دوسرے اور آیت کہ حیات پر دال ہیں۔ اسی کے مقتضی ہیں۔ جیسے ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ تیسرے اثر ابن عباس کہ حکم میں حدیث مرفوع کے ہے اور بسند صحیح ثابت جو اوپر مذکور ہوا اسی کا مبین اور مصرح ہے۔ چوتھے ظاہر احادیث نزول کی اسی معنی کو چاہتی ہیں۔ پانچویں ’’اذقال