علیہم من عین فی البیت ورأسہ یقطر ماء فقال ان منکم من یکفر بی اثنا عشر مرۃ بعد ان آمن بی قال ثم قال ایکم یلقیٰ علیہ شبہی فیقتل مکانے ویکون معی فی درجتی فقام شاب من احدہم سناً فقال اجلس ثم اعاد علیہم فقام ذلک الشاب فقال اجلس ثم اعا دعلیہم فقام الشاب فقال انا فقال ہو انت ذاک فالقی علیہ شبہ عیسیٰ ورفع عیسیٰ من روزنۃ فی البیت الیٰ السماء قال وجاء الطلب من الیہود فاخذ والشبیہ فقتلوہ ثم صلبوہ‘‘ ابن عباس سے روایت ہے کہ جب اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھانا چاہا تو وہ اپنے اصحاب کے پاس آئے اور گھر میں حواریوں میں بارہ آدمی تھے۔ یعنی گھر میں چشمہ تھا۔ اس میں سے نکلے اور ان کے سر سے پانی ٹپکتا تھا تو فرمایا تم میں سے ایسے ہیں کہ میرے اوپر ایمان لانے کے بعد میرے ساتھ بار بار کفر کریں گے۔ ابن عباس نے کہا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میں سے ایسا کون ہے کہ میرا ہم شکل ہو جانا اختیار کر لے کہ میری جگہ قتل کیا جاوے۔ (یعنی یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتے تھے تو ان کی جگہ پر قتل ہو جاوے اور وہ دھوکے میں رہیں) اور وہ میرے درجہ میں ساتھ رہے تو ان میں کانو عمر کھڑا ہوا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ تو بیٹھ جا۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام نے وہی بات ان لوگوں سے کہی تو وہی جوان پھر کھڑا ہوگیا تو فرمایا کہ تو بیٹھ جا تو پھر وہی بات ان لوگوں سے کہی تو پھر وہی جوان اٹھ کھڑا ہوا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کام کا تو ہی ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مشابہت اس پر پڑ گئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گھر میں روشندان تھا۔ اس سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے۔ ابن عباس نے کہا اور یہود کے تلاشی لوگ آئے تو انہوں نے اسی ہم شکل کو پکڑ لیا۔ سو اس کو قتل کر دیا اور سولی پر چڑھادیا۔ حافظ ابن کثیر نے اس روایت کی سند کے بارہ میں کہا۔ ہذا اسناد صحیح الیٰ ابن عباس پوشیدہ نہ رہے کہ یہ صحیح السند اثر حکم میں حدیث مرفوع کے ہے۔ کیونکہ ایسے صحابی کا قول ہے کہ اہل کتاب سے نہیں لیتے۔ چنانچہ یہ بات اپنے موقع پر مذکور ہے اور قاعدہ مسلمہ ہے کہ جو ایسے صحابی کا ایسا اثر ہو کہ جس میں رائے کو دخل نہ ہو تو وہ حکم میں حدیث مرفوع کے ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں رائے کو بالکل دخل نہیں۔ بھلا ایسا قصہ کون اپنی رائے سے کہہ سکتاہے اور سچا متقی آدمی ایسا حال بغیر دوسرے واقف سے سنے۔ اپنی طرف سے کیونکر بیان کر سکتا ہے۔ پس ابن عباس کا کہنا حکماً رسول اﷲﷺ ہی کافرمانا ہے۔ اس سے بھی بالتصریح والتشریح صعود آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ثابت ہوگیا۔ واﷲ اعلم!