بات کی ہے کہ مرزاقادیانی مسیح موعود نہیں نہ اثبات کسی شے پر کیونکہ اثبات نفس اتیان مسیح کا بھی تو درحقیقت مرزاقادیانی ہی کے ذمہ ہے۔ اس واسطے کہ بغیر اس کے ان کا مقصد دلی اور فرض اصلی ثابت نہیں ہوسکتا۔ پس مولوی عبدالحق صاحب کو تومحض نفی مفید مطلب ہے اور مرزاقادیانی کو مولوی اسماعیل صاحب کے مقابلہ میں محض نفی مضر مطلب اور معدم غرض ٹھرے گی۔ پس ان کو نفی شے مع اثبات شے دیگر کرنا ضرور ہے۔ لہٰذا مرزاقادیانی پر بار ثبوت ہوا اور اقامۃ حجۃ ضرور پڑی۔ بخلاف مولوی عبدالحق صاحب کے کہ وہ محض نافی ہیں۔ ان پر اقامۃ حجۃ نہیں باوجود اس کے انہوں نے حجت قائم کر دی اور اگر مان بھی لیں کہ مولوی عبدالحق صاحب پر بھی بار ثبوت ہے۔ تب بھی انہوں نے اپنی حجت قائم کر دی اور مرزاقادیانی نے جس کا ان پر بار ثبوت تھا۔ اس پر کوئی حجت قائم نہ کی۔ پس اس شرط کے بھی مرزامخالف رہے اور مولوی عبدالحق صاحب موافق فافہم فانہ عجیب واﷲ اعلم اور ان میں سے یہ بھی ہے۔ ’’والسعی فی ازالۃ الشبہۃ وتقدیم النصح والانذار۔ الخ‘‘ اس پر بھی مرزاقادیانی نے عمل نہ کیا اور مولوی عبدالحق صاحب نے کلمات نصائح اور اشعار اور الہامات کے ساتھ سبھی طور سے کہہ سنایا کہ پھر بھی اگر نہ مانو تو مباہلہ کے واسطے موجود ہو۔ چنانچہ ان کا اشتہار اس سے پر ہے۔ جس کو منظور ہو دیکھ لے۔
اب ناظرین کو خوب معلوم ہوگیا ہوگا کہ درخواست مرزاقادیانی کی شرائط مسلمہ صاحب رسالہ کے کیسی مخالف ہے اور خلاف سنت اور درخواست مولوی عبدالحق صاحب کی بالکل موافق اور مطابق سنت اور ازالہ اوہام کا تو خالی بہانہ تھا۔ آخر دیکھو جب شائع ہوا تو اس سے کیا ہوا۔ سواء اس کے کہ الحادیات اور زائد شائع ہوئیں۔ ناظرین غور فرماویں کہ اگر مرزاایسے دعوے میں سچے ہوتے تو ہر گز اعراض نہ کرتے۔ کیونکہ مباہلہ کے برابر نہ کسی تقریر میں نفع متصور ہے نہ تحریر میں مگر گھر ہی کے شیر ہیں۔ میدان میں آویں تو حقیقت کھلے سچ ہے ؎
کارمرداں روشنی وگرمی است
کاردوناں حیلہ و بے شرمی است
جب تمہارا کام ایسا کچا ہے تو خلق اﷲ کو کیوں بہکاتے ہو۔ اﷲتعالیٰ سے ڈرو ؎
ہست آخر بیک خدا کارت
نہ کسے یادرہ نہ کس یارت
قولہ… البتہ گمراہ وہی ہے جو کوئی درخواست مباہلہ خلاف کتاب وسنت کے کرتا ہے اور مسلمانوں کو تیر لعنت کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔