تفسیر ابوالسعود میں ہے: ’’وانہ وان عیسیٰ لعلم للساعۃ ای انہ بنزولہ شرط من اشراطہا وتسمیۃ علما لحصولہ بہ اوبحدوثہ بغیر اب اوباء حیاء الموتیٰ ودلیل علی صحتہ البعث الذی ہو معظم ماینکرہ الکفرۃ من الامور الواقعۃ فی الساعۃ‘‘
جلالین میں ہے: ’’وانہ ای عیسیٰ لعلم للساعۃ تعلم بنزولہ‘‘ جمل میں ہے: ’’والمعنی وان نزولہ علامۃ علی قرب الساعۃ مدارک‘‘ میں ہے: ’’ای وان نزولہ علم الساعۃ انتہی‘‘ جامع البیان میں ہے: ’’وانہ عیسیٰ لعلم للساعۃ ای علامتہا فان نزولہ من اشراطہا انتہی‘‘
وجہ استدلال کی یہ ہے کہ انہ کی ضمیر میں مفسرین نے تین احتمالات لکھے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عائد ہے طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے۔ دوسرا یہ کہ وہ عائد ہے طرف قرآن مجید کے۔ تیسرا یہ کہ وہ عائد ہے طرف آنحضرتﷺ کے احتمالین اخرین بالبداہۃ باطل ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید وآنحضرتﷺ کا اوپر کہیں ذکر نہیں ہے۔ بخلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کہ ان کا ذکر قبل بعد موجود ہے۔ پس یہ بات متعین ہوئی کہ مرجع انہ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اب یہاں تین احتمالات ہیں یا نزول مقدر مانا جاوے یا معجزات یا حدوث احتمالین اخرین صحیح نہیں ہیں اور ان کی عدم صحت کی وجہ تحریر اوّل خاکسار میں مرقوم ہے اور مرزاقادیانی نے اس کا کچھ جواب نہیں دیا۔ من شاء فلیرجع الیہ!
علاوہ اس کے یہ دونوں احتمال غیر ناشی عن الدلیل ہیں اور نزول کی مقدر ماننے پر دلیل موجود ہے۔
اوّل حدیث ابن عباس جس کو امام احمد نے موقوفاً اور حاکم اور ابن مردویہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ دوسری حدیث حذیفہ بن الاسید غفاری ’’قال اطلع النبیﷺ علینا ونحن نتذاکر فقال ماتذکرون قالوا نذکر الساعۃ قال انہا لن تقوم حتیٰ تروا قبلہا عشر آیت فذکر الدخان والدجال والدابۃ وطلوع الشمس من مغربہا ونزول عیسیٰ بن مریم الحدیث ورواہ مسلم ج۲ ص۳۹۳‘‘
ودیگر احادیث صحیحہ بخاری ومسلم وغیرہماکہ جو بکثرت نزول عیسیٰ علیہ السلام میں وارد ہوئی ہیں اور یہی قول ابن عباسؓ وابوہریرہؓ ومجاہد وابوالعالیہ وابومالک وعکرمہ وحسن وقتادہ وضحاک