کہ یہ دروازہ کھول دو تو دروازہ کھول دیا جاوے گا تو اس کے پیچھے دجال ہوگا۔ اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے تاج پہنے ہوئے ہر ایک کے پاس تلوار ہوگی۔ زیور پہنائے ہوئے تو جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دجال دیکھے گا تو پگھلنے لگے گا نمک کی طرح اور بھاگنے لگے گا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماویں گے مجھ کو تیرا مارنا ہے تو اس سے بچ نہیں سکتا۔ سو باب لد پر پاکر اس کو قتل کردیں گے۔ پس شکست دے گا اﷲ تعالیٰ یہود کو سو جہاں کہیں وہ چھپیں گے۔ پتھر یا درخت یا دیوار یا کسی جاندار کی آڑ میں۔ سواء ایک خاردار درخت کے تو وہ بول اٹھے گا کہ اے اﷲ کے بندے مسلمان یہ یہودی ہے۔ اس کو آکر قتل کرو اور رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ان کے وقت میں سب کا کلمہ ایک ہی ہوگا۔ سو سواء اﷲ کے اور کوئی نہ پوجا جائے گا اور لڑائی اپنا راچہ رکھ دے گی۔
اور ابن جریر کی روایت میں ہے (کہ جس کے راوی سب رواۃ بخاری اور مسلم سے ہیں۔ سواء دو شخصوں کے ایک عبدالرحمن بن آدم کہ وہ صرف رواۃ مسلم سے ہیں تو ان کی بھی ثقاہت میں کلام نہیں۔ دوسرے بشربن معاذ کہ وہ بھی ثقہ ہیں۔ چنانچہ خلاصہ وغیرہ میں ہے) ’’یقاتل الناس علی الاسلام‘‘ (لفظ اس روایت کے مثل روایت ابی داؤد مسطورہ بالا کے ہیں) یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں سے اسلام پر لڑیں گے۔
تو واضح رہے کہ ان روایتوں سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نزول کے بعد مقابلہ کفار کے ساتھ اور قتل وحرب ضرور کرنا ہوگا۔ گو ان کو چند اں تکلیف نہ اٹھانی پڑی۔ پھر سب ملتیں سواء ملت اسلام کے کھودی جاویں گی اور اسی ایک ملت حقہ کا دور دورہ رہ جاوے گا۔ پھر کس سے حرب ہوگی اور کیوں حرب ہوگی۔ لہٰذا حرب اٹھ جاوے گی اور ان کے وقت میں تحاسد تباغض سب جاتا رہے گا۔
تنبیہہ
ناظرین باانصاف! ذرا غور سے ان الفاظ پیشین گوئی کو جن کو، نبی صاحبﷺ نے کیسی تصریح سے فرمادیا ہے۔ دیکھیں اس سے اور مرزاقادیانی سے کیا نسبت ہے۔ اس کا اپنے آپ کو مصداق بنانا کیسی صحیح احادیث نبویہ کی تکذیب ہے۔ والسلام!
جب یہ بیان بطور مقدمہ کے ناظرین کو سنادیا گیا تو اب صاحب رسالہ کے اس قول کی حقیقت کو بیان کیا جاتا ہے، تو واضح رہے کہ اور الفاظ اس حدیث کے تو، مرزاقادیانی کی غرض کے بالکل مخالف ہیں اور کھلے طور پر اس کے مطلب کو باطل کرتے ہیں۔ لہٰذا ان پر علیحدہ علیحدہ مجھ کو کلام کرنے کی حاجت نہیں۔ البتہ چونکہ صاحب رسالہ نے یضع الحرب اور یضع الجزیۃ میں کلام کیا اور