اپنے زعم میں اپنے مطلب کے موافق بنالیا تو اس واسطے یہ عاجز بھی ان میں کلام کر کے ان کو ان کے مطلب کے خلاف ہونا ظاہر کرتا ہے اور انہیں سے بطلان ان کے مقصد کا ثابت کرتا ہے۔ واﷲ ولی التوفیق!
پوشیدہ نہ رہے کہ صاحب رسالہ نے اوّل اور اصل نسخہ یضع الحرب کو ٹھہرایا اور یضع الجزیہ کو غیراصل اور خلاف اوّل تو میں کہتا ہوں کہ یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ اس کے لئے دلیل بیان کرنا چاہئے۔ مدعی پر ثبوت ہے شاید اس وجہ سے کہتے ہوں گے کہ بعض بخاری کے نسخوں میں نساخ نے اس نسخہ کو حوض میں لکھا ہے اور دوسرے کو حاشیہ پر تومیں کہتا ہوں کہ اگر اسی پر اصل اور غیر اصل ہونا ہے تو جہاں حفص کی قرأت کے موافق کلام مجید مطبوع ہوا ہے اور دوسری قرأت ابوبکر وغیرہ کی حاشیہ پر لکھی ہیں تو چاہئے کہ حفص کی قرأت اصل ہو جاوے اور دوسرے ائمہ کی غیراصل اور جہاں دوسرے کسی امام کی قرأت کے موافق مطبوع ہوا ہے تو وہ قرأت اصل ہو جاوے اور حفص اور دیگر ائمہ کی غیراصل کہیں یہ بے اصل ہے اور کہیں وہ بے اصل ہے۔ یہ کیسا جہل ہے۔ دوسرے میں کہتا ہوں دیکھو بخاری مطبوعہ مصری کو کہ اس میں نسخہ یضع الجزیہ ہی کو حوض میں لیا ہے اور دیکھو علامہ قسطلانی نے اپنی شرح بخاری میں اپنے نسخہ کی کیسی تعریف کر کے اور اپنی اصل کو کیسا وثوق بیان کر کے یضع الجزیہ ہی کو اصل متن میں داخل کیا اور یضع الحرب کو پیچھے بیان کیا اور دیکھو صاحب مشکوۃ نے جس حدیث کو بخاری کی طرف نسبت کیا۔ اس میں نسخہ یضع الجزیۃ ہی کو اختیار کیا اور مصابیح والے نے بھی اسی نسخہ کو لیا اور علامہ ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں جو بخاری کی حدیث کو نقل کیا تو اسی نسخہ کو اختیار کیا تو تمہارے قاعدہ کی رو سے اس کو ترجیح ہوئی یا اس کو۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ دیکھو بروایت انہی صحابی ابوہریرہؓ کے اسی حدیث میں صحیح مسلم میں بلا احتمال نسخہ ثانی کے یضع الجزیۃ ہے اور اس طرح ابوداؤد میں ہے اور اسی طرح ترمذی میں ہے۔ بلا نسخہ ثانی یضع الجزیہ ایسے ہی مستدرک حاکم میں ہے اور مسند احمد میں بھی یہی ہے اور ابن ماجہ میں بھی اسی طرح واقع ہے اور ابوداؤد کی دوسری روایت میں بھی یوں ہی ہے اور بہت روایات ہیں کہ جن میں بلا احتمال دوسرے نسخہ کے یضع الجزیۃ وارد ہے۔ پھر ایک نسخہ کو دوسرے پر بلا مرجح ترجیح دینا اور ایک کو اصل اور دوسرے کو غیراصل بلادلیل کہنا حالانکہ اس کے خلاف پر اس قدر قرائن قائم ہوں اور ایسے شواہد موجود ہوں جہالت صریح یا تدلیس قبیح سے خالی نہیں اور یہ جو کہا کہ: ’’درصورت نسخہ اوّل کے مدعا نہایت واضح ہے۔‘‘ تو میں کہتا ہوں کہ جس کو نسخہ اوّل کہا وہ یضع الحرب ہے۔ یعنی لڑائی اٹھادیں گے۔ یہ دو حال سے خالی نہیں یا یہ کہ ابتداء ہی سے حرب وقتل کفار کریں ہی نہیں یا یہ کہ ابتداء میں