فلیس یومئذ شیٔ یواری منہم احداً حتیٰ ان الشجرۃ تقول یا مؤمن ہذا کافر ویقول الحجر یا مؤمن ہذا کافر‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام فجر کی نماز کے وقت اتریں گے تو مسلمانوں کا امیر کہے گا کہ آپ نماز پڑھائیے تو انکار کریں گے۔ فرماویں گے کہ اسی امت کے بعض بعض پر سردار ہیں۔ آخر ان کا امیر نماز پڑھائے گا۔ جب نماز سے فارغ ہوویں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو مارنے چلیں گے۔ باقی ترجمہ پہلی روایت کا سا ہے۔ اس حدیث میں اوّل رسول اﷲﷺ نے دجال کا بیان کیا کہ اس کے ساتھ سترہزار آدمی ہوں گے۔ اکثر ان کے یہودی اور عورتیں ہوں گی اور یہ بیان فرمایا کہ مسلمانوں پر بہت تکلیف ہوگی اور بھوک کی سخت آفت پڑے گی۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ اتریں گے تو ایسا ایسا کریں گے اور ابن ماجہ میں ہے ’’فقالت ام شریک بنت ابی الفکر یا رسول اﷲ فاین العرب ویومئذ قال ہم قلیل وجلہم یومئذ بیت المقدس وامامہم رجل صالح قد تقدم یصلی بہم الصبح اذا نزل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام وفرجع ذلک الامام یمشی القہقریٰ لیتقدم عیسیٰ علیہ السلام فیضع یدہ عیسیٰ بین کتفیہ ثم یقول وتقدم فصل فانہا لک اقیمت فیصلی بہم امامہم فاذا انصرف قال عیسیٰ افتحوا الباب فیفتح ورأہ الدجال معہ سبعون الف یہودی کلہم ذوسیف محلی وتاج فاذا نظر الیہ الدجال وذاب کما یذوب الملح فی الماء وینطلق ہارباً فیقول عیسیٰ ان لی فیک ضربۃ لن تسبقنی بہا فسیدرکہ عند باب لدالشرقی فیقتلہ ویہزم الیہ الیہود فلا یبقی شیٔ مما خلق اﷲ یتوارٰی بہ یہودی الا انطق ذلک الشیٔ لا حجر ولا شجر ولا حائط ولا دابۃ الا الغرقدۃ فانہا من شجرہم لا تنطق الاقال یا عبداﷲ المسلم ہذا یہودی فتعال فاقتلہ‘‘ اس کے بعد کچھ دجال کا بیان ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں فرمایا۔ ’’وتکون الکلمۃ واحدۃ فلا یعبد الا اﷲ وتضع الحرب اوزارہا‘‘ یعنی جب رسول اﷲﷺ نے دجال کا ذکر فرمایا تو ام شریک نے پوچھا کہ اس وقت میں عرب کہاں ہوں گے تو فرمایا وہ بہت کم ہوں گے اور اکثر ان کے بیت المقدس میں ہوں گے اور ان کا سردار ایک صالح آدمی ہوگا۔ صبح کی نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھے گا کہ عیسیٰ مریم کے بیٹے اتریں گے تو یہ امام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امام کرنے کے لئے پیچھے ہٹے گا۔ تو وہ نہ مانیں گے۔ آخر وہی سردار نماز پڑھائیں گے۔ جب نماز سے فراغت پاویں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماویں گے