اتقوا والذین ہم محسنون‘‘ کیا رسول اﷲ کو جو مخاطب ہیں۔ اس میں انکار یا شک تھا۔ ایسے ہی ’’وان لک لا جراً غیر ممنون وانک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ اور ’’انا اعطیناک الکوثر‘‘ اور ’’ولئن اتبعت اہواء ہم من بعد ماجاء ک من العلم انک اذا لمن الظالمین‘‘ بھلا اس میں رسول اﷲﷺ کے طرف شک یا انکار کا گمان ہو سکتا ہے۔ مثل اس کے اور بہت ہیں جمع کرنے کے لئے ایک بڑا دفتر چاہئے۔ حاصل کلام یہ کہ تاکیدوں کے واسطے انکار تحقیقی ضرور نہیں۔ بغیر تحقیقی انکار کے بھی تاکیدات حسب مقتضاء حال آتی ہیں تو اس پیشین گوئی میں بھی اسی طرح ہے۔ چونکہ یہ ایک بات تعجب کی ہے اور خوارق عجیبہ سے لہٰذا متعجب کو بجائے منکر کے قرار دے کر خبر کو مؤکد بتاکیدات فرمایا۔
دوسرے! ہوسکتا ہے کہ اﷲ حکیم وعلیم نے اپنے نبی کو تم جیسے منکروں کی خبر دے دی ہو کہ ایسے ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے اور میرا ظن یہی ہے کہ ضرور خبر دی گئی ہوگی۔ کیونکہ یہ تو بڑا فتنہ عظیم ہے۔ رسول اﷲﷺ نے تو اس فتنہ والے تک کی خبر دے دی۔ جس کے ساتھ تین سو آدمی ہوں۔ قیامت تک جتنے ہوں اس کا نام اور اس کے باپ کا نام اور اس کے قبیلہ کا نام بتا دیا۔ چنانچہ ابوداؤد کی روایت میں ہے۔ ’’عن حذیفۃ قال واﷲ ما ادری انسی اصحابی ام تناسوا واﷲ ما ترک رسول اﷲﷺ من قائد فتنۃ الیٰ ان تنقضے الدنیا یبلغ من معہ ثلمائۃ فصاعداً الا قد سماہ لنا باسمہ واسم ابیہ واسم قبیلۃ‘‘ اس کا ذکر مجملاً انہی حضرت حذیفہؓ سے بخاری اور مسلم میں بھی ہے۔ پس نبی صاحب نے انہیں منکروں کے واسطے یہ تاکیدیں فرمائیں کہ ہر گز اس میں شک نہ کریں۔ پس فائدہ تاکید کا ظاہر ہوگیا اور تاکید لغو نہ ہوئی۔نکتاہا ہست بسے محرم اسرار کجاست
قولہ… ہاں بموجب مسلک مرزاقادیانی کے محمل ان تاکیدات کا بہت درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ نزول ایسا ہوگا جس سے تم بسبب اپنے خیالات کے منکر ہوگے اور وہ عیسیٰ بن مریم بھی ایسا ہی ہوگا کہ تم اس کا انکار کرو گے۔
اقول… یہ تو جب ہوتا کہ مثلاً عبارت حدیث کی اس طرح ہوتی۔ ’’والذی نفسی بیدہ لیؤشکن ان یخلق فیکم (بامثل اس کے کوئی اور لفظ) مثیل ابن مریم‘‘ اور یہاں تو کچھ اور ہی ہے۔ جو تمہارے مطلب کی بیخ کنی کرتی ہے اور پھر اس پر اکتفا نہیں۔ بلکہ اور تصریح آخر اور تشریح دیگر کے ساتھ کہ محال ہے۔ صدق اس کا تمہارے مسیح پر پس مطلب حدیث کجا اور مقصد مرزا کجا اور فرمان نبوی کجا اور غرض مرزاکجا۔ ’’فبینہما بعد المشرقین‘‘