قولہ… مگر نفس الامر میں وہ نزول ایسا ہی ہوگا۔ جیسا کہ ’’قد انزلنا الیکم ذکراً رسولاً‘‘ میں ہے۔
اقول… بلا شک ایسے ہی نزول ہوگا جو اس آیت میں ہے کہ مراد اس سے جبرائیل ہیں اور بیان اس آیت کا گزر چکا۔ فتذکر!
قولہ… اندریں صورت علاوہ بلاغت کلام کے ایک دوسری پیشین گوئی اشارۃً اور بھی پیدا ہوگئی اور قاعدہ کلیہ علم معانی کا کہ ’’کل حکم مع منکر یجب توکیدہ‘‘ بھی منقوض نہ ہوا۔
معانی وانی مؤلف اعلام الناس کی
اقول… یہ بلاغت اور یہ اشارہ دوسری پیشین گوئی کا تو جب ہوتا کہ وہ عبارت ہوتی جو ابھی ہم نے لکھی۔ ’’واین ہذا من ذٰلک‘‘ مخفی نہیں کہ غرض صاحب رسالہ کی تو یہ ہے کہ تاکیدات کے واسطے ضرور ہے کہ خطاب ہو کسی منکر معاند کے ساتھ۔ نہ یہ کہ معاند کے مقابلہ میں تاکید ضرور ہے۔ پس اس عبارت قاعدہ کا لانا ’’کل حکم مع منکر یجب توکیدہ‘‘ موافق مطلوب نہ ہوگا۔ کیونکہ اس سے تو صرف اس قدر نکلتا ہے کہ حکم مع منکر کے واسطے تاکید ضرور ہے۔ نہ یہ کہ جہاں تاکید ہوگی تو کسی منکر ہی کے مقابلہ میں ہوگی۔ پس یہ قاعدہ کلیہ اس جگہ تو ویسے بھی نہیں ٹوٹا اس مطلوب کے لئے تو ایسی عبارت لانا چاہئے تھی۔ ’’التوکید انما یکون مع المنکر‘‘ یا مثل اس کے اگر کہا جاوے کہ حکم وجوب تاکید راجع ہے قید کی طرف، تو ہم کہیں گے کہ قطع نظر خلاف ظاہر کے اس سے عدم وجوب درحالت عدم انکار کے نکلے گا۔ نہ عدم استحسان یا عدم جواز بھی۔ پس بہرحال اس مطلب کے واسطے یہ اس عبارت قاعدہ کا لانا مفید طلب نہ ہوگا۔ بلکہ یہ ایک کھلی دلیل مؤلف اعلام الناس کے معنی دانی کی ہوگئی۔
قولہ… دوسرے الفاظ صحیحین کے یہ ہیں کہ ’’کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘‘ ان الفاظ میں بھی استفہام تعجبی کا کوئی محمل صحیح نہیں۔ معلوم ہوتا۔ لیکن بموجب مسلک مرزاقادیانی کے یہ استفہام تعجبی بھی اپنے محل پر ہے۔ جس کا جواب خود نبی کریمﷺ نے اپنے کلام پاک میں دے دیا۔ ’’وامامکم منکم‘‘ جیسا کہ شرح بخاری میں لکھا ہے۔ اووضع المظہر موضع المضمر! حاصل مطلب یہ ہے کہ ابن مریم تمہیں میں سے ہوگا۔
اقول… یہ استعمال لفظ استفہام کا واسطے تعظیم شان حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے تفخیم حال کے لئے ہے کہ کیا اچھا تم لوگوں کا اس وقت حال ہوگا اور وہ وقت کیا خوب ہو گا۔ چنانچہ دوسری احادیث میں تفصیل اس کی فرمادی کہ کیسی اسلام کو قوت اور مؤمنین کو عزت اور کفار کو ذلت اور کفر کی