قولہ… اب یہ غرض ہے کہ حدیث متنازع فیہ میں یہ پیشین گوئی بایں تاکیدات کیوں مذکور ہوئی ہے۔ ’’والذی نفسی بیدہ لیؤشکن ان ینزل فیکم ابن مریم‘‘ اوّل تاکید قسم کے ساتھ دوسرے لام تاکید اور نون ثقیلہ یہ خطاب نبی علیہ السلام کا کن لوگوں سے ہے۔ آیا صحابہ کرامؓ سے ہے۔ بالکل امت اجابت ونیز امت دعوت سے بہردوشق تاکیدات لغو ہوئی جاتی ہیں۔ کیونکہ صحابہ کرامؓ اور امت اجابت تو مؤمنین کاملین ہیں۔ منکرین معاندین نہیں جو محتاج تاکید ہوں اور جب کہ نزول عیسیٰ بن مریم باوجود عنصری مراد ہے تو ایسا نزول من السماء جو شخص دیکھے گا وہ انکار کیونکر کر سکتا ہے۔ پس بہردوصورت کلام مقتضاء حال کے مطابق نہ ہوا اور بلاغت وفصاحت سے عاری ہوا۔ کیونکہ ایسے تاکیدات تو خطاب میں کسی بڑے منکر معاند کے چاہئے تھیں۔
اقول… بعون اﷲ تعالیٰ تاکیدات جو انکار کے جواب میں لائی جاتی ہیں تو یہ کچھ ضرور نہیں کہ انکار تحقیقی ہو بلکہ بہت جگہ بسبب انکار حکمی کے تاکیدین لائی جاتی ہیں اور غیرمنکر کو قائم مقام منکر کے اور غیرمسائل کو قائم مقام سائل کے حسب مقتضاء حال کے قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ تصریح اس کی علم معانی میں مذکور ہے اور نیز کلام فصحاء وبلغاء میں ہزاروں جگہ موجود ہے۔ چونکہ یہ قاعدہ مسلمہ ہے۔ حاجت مثال کی نہ تھی۔ مگر چند مثالیں ابلغ الکلام کلام الملک العلام سے بیان کرتا ہوں۔ فرمایا اﷲتعالیٰ نے ’’لئن اشرکت لیحبطن عملک‘‘ کیا رسول اﷲﷺ کو اس میں شک تھا اور فرمایا حکایت قول ابلیس میں ’’فبعزتک لا غوینہم‘‘ کیا نعوذ باﷲ اس میں اﷲ جل جلالہ کو کچھ انکار یا شک تھا کہ یہ تاکیدین لائی گئیں اور فرمایا ’’والضحیٰ واللیل اذا سجیٰ ما ودعک ربک وما قلیٰ وللآخرۃ خیر لک من الاولیٰ‘‘ کیا رسول اﷲﷺ کو جو مخاطب تھے اس میں انکار تھا۔ اس قدر تاکید قسم اور پھر لام کے ساتھ فرمایا۔
اور فرمایا ’’والعادیٰت ضبحا فالموریٰت قدحاً الیٰ قولہ ان الانسان لربہ لکنود‘‘ انسان کے ناشرہ ہونے میں کس کو شک یا انکار ہے۔ بلکہ موافق معنی قرب کے اﷲتعالیٰ خود فرماتا ہے کہ انسان خود بھی اس بات پر شاہد ہے۔ چنانچہ فرمایا ’’وانہ علی ذالک لشہید وانہ یحب الخیر شدید‘‘ اور فرمایا ’’لا اقسم بہذا البلد وانت حل بہذا البلد ووالد وما ولد لقد خلقنا الانسان فی کبد‘‘ اس میں کس کوشک یا انکار ہے کہ اس قدر تاکیدات سے فرمایا گیا۔ اس طرح کی قسمیں اور تاکیدیں تو کلام مجید میں بکثرت وارد ہیں کہ ظاہر میں کوئی متردد یا انکاری نہیں۔ مگر غیر منکر کو منکر کے قائم مقام کر کے حسب مقتضاء حال فرمایا ہے اور فرمایا ’’ولا تحزن علیہم ولا تک فی ضیق فما یمکرون ان اﷲ مع الذین