اور لایا ہے تمہارے پاس کھلی نشانیاں تمہارے رب کی اور اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس پر پڑے گا۔ اس کا جھوٹ اور اگر وہ سچا ہو تو تم پر پڑے گا کوئی وعدہ جو دیتا ہے بے شک اﷲ راہ نہیں دیتا۔ اس کو جو ہوے بے لحاظ جھوٹا۔
اوّل! تو مرد مؤمن نے قتل سے منع کیا تھا۔ نہ تکذیب محض سے اگر تکذیب محض سے بھی منع کر دیا جاوے تو معجزہ کس طرح دیکھنے میں آوے۔ پس صاحب رسالہ کا یہ کہنا کہ مرزاقادیانی کی تکذیب اس دعویٰ میں ہرگز نہ کی جاوے اور اس پر یہ قاعدہ بیان کرنا تدلیس یا سوء فہمی سے خالی نہیں۔
دوسرے! یہ کہ آیت کریمہ میں تو یہ ہے کہ ’’وقد جاء کم بالبینات من ربکم‘‘ یعنی قاعدہ اس وقت کا ہے کہ مدعی دلائل ظاہرہ کے ساتھ آیا ہے اور تمہارے یہاں ظاہر کیا معنی کوئی غیر ظاہر دلیل بھی نظر نہیں آتی۔ خالی زبانی جمع خرچ ہے۔ مگر ہمارے پاس تمہارے دعاوی کے بطلان پر بیّنات ہیں۔ موقع پر انشاء اﷲ بیان ہوں گے۔
تیسرے! یہ کہ تمہارے فہم کے موافق ان دجالین کے مقابلہ میں جن کی خبر نبی صاحب نے دی ہے کہ ہر ایک ان میں کا نبوت کا دعویٰ کرتا ہوگا اور مقابلہ میں دجال اکبر کے اس قاعدہ کا کیا جواب ہے۔ ’’فما جوابکم فیہم فہو جوابنا فی مسیحکم‘‘ مگر میرا گمان تو یہ ہے کہ تمہارے نزدیک یہ کوئی نہ ہوگا۔ اس واسطے کہ سب کے بدلے کے یک آگئی۔ واﷲ اعلم!
قولہ… واضح رہے کہ اگر پیشین گوئیاں جن سے معنی ظاہری قطعا مراد نہیں بلکہ استعارۃ وکنایۃ دوسرے معانی لطیفہ بطور استعارہ کے مراد ہیں۔ جمع کی جاویں تو ایک دفتر ہو جاوے۔ بالفعل انہیں دس پر اقتصار کیاگیا۔ وتلک عشرۃ کاملۃ!
وجہ اختصار
اقول… واضح ہو کہ صاحب رسالہ نے یہ دس جو جمع کی ہیں۔ ان میں ایسے ایسے ہیں کہ درجہ اعتبار سے ساقط ہیں۔ پھر اور کیا جمع ہوں گے کہ درجہ اعتبار میں آویں۔ یہی دس جو بڑے زور شور سے لائی گئیں۔ ’’کرماد اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف‘‘ ہو گئیں۔ باوجودیکہ جواب میں خوف طول سے قصدا اختصار بہت کیاگیا۔ اﷲ جل شانہ شاہد ہے اس بات کا، کہ اگر اس عاجز کو قلت فرصت اور عدم سامان کتب نہ ہوتا تو انشاء اﷲ بہت تفصیل وزائد تحقیق کے ساتھ جواب لکھتا۔ بہرحال حق مغلوب نہیں ہوسکتا اور اﷲ کے دین کا نور نہیں بجھ سکتا۔