اور فرمایا ’’ان اﷲ عندہ علم الساعۃ‘‘ یعنی اﷲ ہی کے پاس ہے علم قیامت کا۔
اور احادیث میں بیشمار جگہ موجود ہے۔ بطور مثال کہتا ہوں۔ فرمایا ’’فی خمس لا یعلمہن الا اﷲ‘‘ اور فرمایا ’’ماالمسئول عنہا باعلم من السائل‘‘ غرض کہ یہ بات ایسی ظاہر ومشہور ہے کہ جس سے نہ عالم منکر وبیخبر ہے نہ عامی، پھر کون محدث اس بات کو جزاً کہہ سکتا ہے۔ مگر صاحب رسالہ کے نزدیک تو تمام محدثین اور خلف منکر صریح کلام الٰہی اور مکذب تصریح نبوی کے ہوکر دنیا کی عمر حد معلومہ کے قائل ہوگئے۔ نعوذ باﷲ من ذلک!
پس تمام محدثین پر افتراء کر کے اس خیال کو مرزاقادیانی کے خیال کے ساتھ تشبیہ دینا اور محدثین پر افترائی خیال کو مرزاقادیانی کے خیال کا شاہد بنانا۔ بناء فاسد کی فاسد پر ہے۔ وھو کما تری! دوسرے! اگر مانیں بھی کہ کوئی اس بات کا قائل ہوگیا ہو تو بھی تمہارے مطلب کے مفید نہ ہوگا۔ کیونکہ وہاں تو پہلے باعتبار قواعد شرعیہ کے بڑی باطل بات تھی۔ پیچھے حق معلوم ہوگیا۔ بخلاف تمہارے مطلب کے کہ پہلا خیال بالکل قواعد شرعیہ کے موافق ہے اور اس میں کوئی محال شرعی یا عقلی لازم نہیں آتا۔ پھر حقیقت کیوں مہجور ہوگی۔ پس یہ یعنی شے کو اپنے ضد کے ساتھ تشبیہ دے کر اور مخالف کو شاہد بنا کر ثابت کرنا کون سی عقل کی بات ہے۔ وہاں تو جو پہلا خیال فرض کیاگیا ہے قواعد شرعیہ کے بالکل خلاف ہے اور خیال پچھلا موافق اور یہاں جو پہلا خیال ہے یعنی نزول ذاتی حضرت عیسیٰ علیہ السلام قواعد کے موافق ہے اور پچھلا یعنی جو تمہارے پیر اور تم معنی کرتے ہو بالکل مخالف۔ پس اس پر اس کو قیاس کرنا کیسا خلاف عقل ہے؟ اگر ایسے قیاسات صحیح ہوں تو چاہئے کہ اخبار مستقبلہ کے جہاں کہیں جو معنی کئے گئے ہیں۔ سب سے رجوع کر لینا چاہئے۔ اس پر قیاس کر کے ایسے ہی کسی نص شرعی میں کوئی نئے معنی ظاہر ہونے سے لازم آوے گا کہ جب نصوص کے جو معنی کئے گئے۔ چاہے عملی ہوں چاہے اعتقادی۔ سب سے رجوع کر لیا جاوے اور ایک جگہ پچھلے معنی غلط ہونے سے سب جگہ معانی غلط ٹھہرا دئیے جائیں۔
پس یہ شریعت کیا ہنسی کھیل ہوگئی؟ نعوذ باﷲ من ذالک! کیا فرضاً اگر علماء کا خیال بسبب خلط خیالات اہل کتاب کے نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باوجود عنصری ہوگیا تو کیا رسول اﷲﷺ کو بھی اہل کتاب نے بہکا دیا کہ انہوں نے فرمادیا کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں موجود ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ ’’لیس بینی وبین عیسیٰ نبی وانہ نازل‘‘ یعنی میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں اور وہ (یعنی