صحاح میں کہیں نہیں پائی جاتی اور نہ قرآن مجید سے یہ تصریح ثابت ہوتی ہے۔ مؤلف!
مرزائی اعلام کا محدثین پر افتراء
اقول… وباﷲ التوفیق! یہ کہنا کہ (تمام محدثین سلف وخلف کا یہ خیال تھا کہ عمر دنیا کی ابتداء فناتک سات ہزار برس ہے) محدثین اراکین دین پر بڑا افتراء ہے۔ ’’ہذا بہتان عظیم‘‘ تمام محدثین سلف وخلف سے تو کیا تم آدھوں سے ثابت کر دو کہ وہ اس کے قائل تھے۔ آدھوں سے نہیں تہائی، چوتھائی سے ہم کہتے ہیں۔ دو تین ہی معتبر سے ’’وان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودہا الناس والحجارۃ‘‘ ظاہر بات ہے کون اہل علم سے اس بات کو کہے گا کہ انتہائے عمر دنیا کی اور وقت معین قیامت کا معلوم ہوگیا۔ جس کو اﷲ جل شانہ اپنے کلام پاک میں جابجا بالتصریح والتنصیص فرماتا ہے کہ سوائے ذات باری کے اور کسی کو اس کا علم نہیں۔ چنانچہ فرمایا۔ ’’یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسہا قل انما علمہا عند ربی لا یجلیہا لوقتہا الا ہو‘‘ تجھ سے پوچھتے ہیں۔ قیامت کس وقت ہے۔ اس کا ٹھہراؤ تو کہہ اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے۔ نہ ظاہر کرے گا اس کو اس کے وقت پر مگر وہی۔
اور فرمایا ’’یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسہا فیم انت من ذکراہا الیٰ ربک منتہہا‘‘ تجھ سے پوچھتے ہیں۔ قیامت کا ٹھہراؤ کس وقت ہے تو کس بات میں ہے۔ اس کے مذکور سے تیرے رب کی طرف ہے اس کی انتہائ۔ یعنی پوچھتے پوچھتے اسی کی طرف پہنچنا ہے۔ بیچ میں سب بیخبر ہیں۔
اور فرمایا ’’یسئلک الناس عن الساعۃ قل انما علمہا عند اﷲ‘‘ یعنی قیامت کا علم تو اﷲ ہی کو ہے۔
اور فرمایا ’’ان الساعۃ آتیۃ اکادا خفیہا‘‘ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ نزدیک ہے کہ میں چھپا ڈالوں اس کو۔
اور فرمایا ’’الیہ یرد علم الساعۃ‘‘ اﷲ ہی کے طرف حوالہ کیا جاتا ہے علم قیامت کا۔
اور فرمایا ’’ویقولون متی ہذا الوعد انکنتم صادقین قل انما العلم عند اﷲ وانما انا نذیر مبین‘‘ اور کہتے ہیں کب ہے یہ وعدہ (یعنی قیامت چنانچہ ماقبل کی آیت بتاتی ہے) تو کہہ خبر تو ہے اﷲ ہ کے پاس اور میں تو یہی ڈرسنانے والا ہوں۔