گئے۔ پیشین گوئی واقع ہوگئی تو یہ قول صاحب رسالہ کا (اگر قمیص کے معنی حقیقی مراد لئے جاویں پیشین گوئی واقع نہ ہوگی) غلط ہے قطع نظر اس سے موافق فہم صاحب رسالہ کے، میں کہتا ہوں حسب ترجمہ صاحب رسالہ کے پیشین گوئی تو اسی قدر ہے کہ اﷲتمہیں ایک قمیص پہنائے گا تو ایک کیا اﷲتعالیٰ نے انہیں بیسیوں پہنائے۔ پھر آگے حکم فرمایا کہ اگر منافقین اتارنا چاہیں تو نہ اتارنا۔ پس قمیص کے معنی حقیقی لے کر پیشین گوئی کیوں نہ واقع ہوئی۔ پھر ہم کہتے ہیں۔ اگر مجاز مان بھی لیں تو قرینہ صارفہ کیسا قوی (یعنی ’’ان ولاک اﷲ ہذا الامر‘‘ اور دوسرے تصریحات) موجود ہے۔ آپ کوئی قرینہ صارفہ ضعیفہ ہی پیش کیجئے۔ پس یہ کیا قیاس مع الفارق ہے۔ ’’ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکمتوالحق‘‘
قولہ… تحریر الشہادتین میں لکھا ہے کہ ابن عساکر نے محمد بن عمر بن حسن سے روایت کی ہے کہ ہم کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے ساتھ تھے۔ سو انہوں نے سمرہ کو دیکھ کر فرمایا۔
اقول… بعد تسلیم صحت نقل کے اس روایت کا صحیح ہونا مسلم نہیں۔ صاحب رسالہ کا نفس استشہاد ہے جب تک صحت روایت کو ثابت نہ کر لیں صحیح نہیں، وجہ استشہاد پر تو نظر پیچھے کی جاوے گی۔ بلکہ اہل علم نے احادیث ابن عساکر کو طبقہ رابعہ سے خیال کیا ہے۔ جن کی اصلح روایت ضعیف محتمل اور اسوء موضوع وغیرہ ہوتی ہے۔ ’’قال فی حجۃ البالغۃ والطبقۃ الرابعۃ کتب قصد مصنوفہا بعد قرون متطاولۃ جمع مالم یوجد فی الطبقتین الاولین وکانت فی المجامیع والمسانید المختفیۃ فنوہو ابامرہا وکانت علی السنۃ من لم یکتب حدیثہ المحدثون ککثیر من الوعاظ المتشدقین واہل الاہواء والضعفاء اوکانت من آثار الصحابۃ والتابعین اومن اخبار بنی اسرائیل اومن کلام الحکماء والوعاظ خلطہا الرواۃ بحدیث النبیﷺ سہوا او عمدا اوکانت من محتملات القرآن والحدیث الصحیح فرداہا بالمعنی قوم صالحون لا یعرفون غوامض الروایۃ فجعلوا المعانی احادیث مرفوعۃ اوکانت معانی مفہومۃ من اشارات الکتاب والسنۃ جعلوہا احادیث مستندۃ براسہا عمدا اوکانت جملا شتی فی احادیث مختلفۃ جعلوہا حدیثا واحدا بنسق واحد مظنۃ ہذہ الاحادیث کتاب الضعفاء لا بن حبان وکامل ابن عدی وکتب الخطیب وابی نعیم والجوزقانی وابن عساکر وابن النجار والدیلمے وکاد مسند الخوارزمی یکون من ہذہ الطبقۃ واصلح ہذہ الطبقۃ